کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 267
انہی فوائد کی بنا پر سب سے زیادہ کڑی آزمائش والے (حضراتِ) انبیاء علیہم السلام تھے، پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ لوگ۔[1] نُسِبُوا إِلَی الْجُنُوْنِ وَ الْکَہَانَۃِ، وَ اسْتُھْزِیئَ بِہِمْ وَسُخِرَ مِنْہُمْ۔ {فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَ أُوْذُوْا}[2] وَ قِیْلَ لَنَا:
[1] ملاحظہ ہو: جامع الترمذي ، أبواب الزہد ، باب في الصبر علی البلآء ، رقم الحدیث ۲۵۰۹، ۷؍۶۶۔۶۷۔ امام ترمذی اور شیخ البانی نے اسے [حسن صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۷؍۶۷ ؛ و صحیح سنن الترمذي ۲؍۲۸۶)۔ اسی فائدے کو بیان کرتے ہوئے امام ابن قیم نے لکھا ہے: [اس (یعنی غم، قلق، اضطراب اور بے چینی) کے علاج میں سے (ایک بات یہ) ہے، کہ وہ (خوب اچھی طرح) جان لے، کہ اگر دنیوی امتحانات اور مصیبتیں نہ ہوتیں، تو بندے کو … تکبر، نفس کا غرور، فرعونیت اور قساوت قلب (یعنی دل کی سختی) کی بیماریاں لاحق ہو جاتیں… جو کہ جلد یا بدیر اس کی ہلاکت کا سبب ہیں۔ ارحم الرحمین کی رحمت (و شفقت) میں سے یہ (حقیقت) ہے، کہ وہ بسا اوقات مصیبتوں کے علاج میں سے کچھ اقسام کے ساتھ اس (یعنی بندے) کی خبرگیری فرماتے ہیں، جو کہ ان بیماریوں سے بچاتی ہیں۔ اس کی بندگی کی درستگی کی حفاظت کرتی ہیں اور فاسد، گھٹیا اور مہلک مواد کو اس سے خارج کر دیتی ہیں۔ (ہر عیب سے) پاک ہیں، وہ ذات، جو کہ اپنی (جانب سے بھیجی جانے والی) آزمائش کے ساتھ شفقت فرماتے اور اپنی نعمتوں کے ساتھ ابتلا میں ڈالتے ہیں۔ جیسے کہ کہا گیا ہے: قَدْ یُنْعِمُ اللّٰہُ بِالْبَلْوَیٰ وَ إِنْ عَظُمَتْ وَ یَبْتَلِيْ اللّٰہُ بَعْضَ الْقَوْمِ بِالنِّعَمٖ بسا اوقات اللہ تعالیٰ آزمائش کے ساتھ، اگرچہ وہ بہت بڑی ہوتی ہے، انعام فرماتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نعمتوں کے ساتھ آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں۔ سو اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا مصیبتوں اور آزمائش کی دوائیوں کے ساتھ علاج نہ کرتے، تو وہ سرکش، باغی اور خود سر ہو جاتے۔ جب اللہ سبحانہ کسی بندے کے ساتھ خیر کا ارادہ فرماتے ہیں، تو مہلک بیماریوں کو خارج کرنے کی غرض سے، اس کے مناسب حال، ابتلاء و امتحان کی دوائی اسے پلا دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اسے سُدھار کر اور صاف سُتھرا کر کے دنیا کے بلند ترین مقام [عبودیت] اور آخرت کے بلند ترین ثواب، اور [وہ ان کا دیدار اور قرب] ہے، کے اہل بنا دیتے ہیں]۔ (زاد المعاد ۴/۱۹۵)۔ [2] سورۃ الأنعام / جزء من الآیۃ ۳۴۔