کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 262
کَثْرۃِ ثَوَابِہٖ۔ & {وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ}[1] & {إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ}[2] ’’وَ مَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَائً خَیْرًا وَ أَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ۔‘‘[3] آٹھواں: اُس (یعنی مصیبت) پر صبر کرنا اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُن کے بہت زیادہ ثواب کا موجب ہے۔ [ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں]۔ [ترجمہ: بلاشبہ صبر کرنے والوں کو بلا حساب ان کا پورا پورا اجر دیا جاتا ہے]۔ [ترجمہ: اور کسی کو صبر سے بہتر اور اس سے زیادہ وسعت والی نعمت نہیں دی گئی]۔ ’’اَلتَّاسِعُ: اَلْفَرَحُ بِہَا لِأَجْلِ فَوَآئِدِھَا، قَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَامُ: ’’وَ الَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ! إِنْ کَانُوْا لَیَفْرَحُوْنَ بِالْبَلَآئِ کَمَا تَفْرَحُوْنَ بِالرَّخَآئِ۔‘‘[4]
[1] سورۃ آل عمران / جزء من الآیۃ ۱۴۶۔ [2] سورۃ الزمر / جزء من الآیۃ ۱۰۔ [3] ملاحظہ ہو: صحیح البخاري، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسألۃ، جزء من رقم الحدیث ۱۴۶۹، ۳/۳۳۵۔ تنبیہ: اسی کتاب کے صفحات … میں [صبر کے ساتھ مدد طلب کرنا] کے عنوان کے تحت توفیقِ الٰہی سے گفتگو کی گئی ہے۔ اس مقام پر مقصود یہ تھا، کہ مصیبت کے آنے پر، مصیبت زدہ کو صبر کرنا چاہیے، کہ ایسا کرنے میں اُس کے لیے دنیوی اور اخروی فوائد ہیں۔ یہاں [صبر] کے ذکر سے مقصود یہ ہے، کہ مصیبتوں کے فوائد میں سے ایک یہ ہے، کہ وہ مصیبت میں مبتلا لوگوں کے لیے صبر کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اگر مصیبت ہی نہ آئے، تو اس پر [صبر والی عظیم نیکی] کیسے کی جائے گی۔ [4] ملاحظہ ہو: سنن ابن ماجہ، أبواب الفتن، باب الصبر علی البلآء ، جزء من رقم الحدیث ۴۰۷۳، ۲/۳۸۶۔ حافظ بوصیری نے اس کی [سند کو صحیح] اور [راویان کو ثقہ] قرار دیا ہے۔ نیز لکھتے ہیں، کہ امام ترمذی کی مصعب بن سعد کی اپنے والد سعد رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کردہ حدیث، اس کا شاہد ہے۔ امام ترمذی نے اُس روایت کو [حسن صحیح] کہا ہے۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجۃ ۲/۳۰۲؛ صحیح سنن ابن ماجہ ۲/۳۷۲)۔