کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 261
وَ تَخْتَلِفُ مَرَاتِبُ الْحِلْمِ بِاِخْتِلَافِ الْمَصَآئِبِ فِيْ صِغْرِھَا وَ کِبْرِھَا۔ فَالْحِلْمُ عِنْدَ أَعْظَمِ الْمَصَآئِبِ أَفْضَلُ مِنْ کُلِّ حِلْمٍ۔ چھٹا: جس سے مصیبت پہنچی ہو، اس کے ساتھ بردباری (کا معاملہ) کرنا۔ (ترجمہ: بلاشبہ ابراہیم- علیہ السلام - بڑے مربان مزاج اور نہایت بردبار طبیعت ہیں]۔ & [بلاشبہ آپ میں یقینا دو خصلتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں: بردباری اور ٹھہراؤ]۔ ’’اَلسَّابِعَۃُ: اَلْعَفْوُ عَنْ جَانِیْہَا۔ & {وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ}[1] & {فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ}[2] وَ الْعَفْوُ عَنْ أَعْظَمِہَا أَفْضَلُ مِنْ کُلِّ عَفْوٍ۔ ’’ساتواں: زیادتی کرنے والے سے درگزر کرنا۔ & [ترجمہ: اور لوگوں سے درگز کرنے والے]۔ & [ترجمہ: پس جو شخص درگز کرے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے]۔ اور سب سے بڑی (مصیبت پہنچانے والے سے) درگزر کرنا، ہر درگز کرنے سے زیادہ فضیلت والا ہے۔‘‘ ’’اَلثَّامِنَۃُ: اَلصَّبْرُ عَلَیْہَا۔ وَ ھُوَ مُوْجِبُ لِمُحَبَّۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَ
[1] سورۃ آل عمران / جزء من الآیۃ ۱۳۴۔ [2] سورۃ الشورٰی / جزء من الآیۃ ۴۰۔ تنبیہ: علامہ عز الدین رحمہ اللہ کے اس بیان کا مقصود یہ ہے، کہ مصیبتوں کے آنے کے اسباب میں سے کسی دوسرے شخص یا اشخاص کی جانب سے مصیبت زدہ پر ظلم ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں مصیبت زدہ کے لیے درگزر کر کے اللہ تعالیٰ سے بہترین جزا پانے کا موقع میسر آتا ہے۔ وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔