کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 260
[ترجمہ: اور جب تمہیں سمندر میں مصیبت پہنچتی ہے، تو اُن (یعنی اللہ تعالیٰ) کے سوا، وہ سب گم ہو جاتے (یعنی بھول جاتے) ہیں، جنہیں تم پکارتے ہو]۔ & {قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَہٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً لَئِنْ أَنْجٰنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ}[1] [آپ کہہ دیجیے: وہ کون ہے، جو تمہیں خشکی اور سمندر کی تاریکیوں سے نجات دیتا ہے؟ تم انہیں گریہ زاری کرتے ہوئے چپکے چپکے (یہ کہتے ہوئے) پکارتے ہو: اگر آپ نے ہمیں اس سے نجات دے دی، تو یقینا ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہو جائیں گے]۔ اَلسَّادِسَۃُ: اَلْحِلْمُ مِمَّنْ صَدَرَتْ عَنْہُ الْمُصِیْبَۃُ & {إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ لَأَوَّاہٌ حَلِیْمٌo}[2] ’’إِنَّ فِیْکَ لَخَصْلَتَیْنِ یُحِبُّہُمَا اللّٰہُ تَعَالٰی: اَلْحِلْمُ وَ الْأَنَاۃُ۔‘‘[3]
[1] سورۃ الأنعام / الآیۃ ۶۳۔ [2] سورۃ التوبۃ / جزء من الآیۃ ۱۱۴۔ نوٹ: اس آیت شریفہ کے ذکر کرنے کا مقصود -و اللّٰہ تعالٰی أعلم- یہ ہے، کہ بردبار بننے کا موقع میسر آنا معمولی نعمت نہیں، اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا، کہ وہ (حلیم) تھے۔ [3] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اشج عبدالقیس رضی اللہ عنہ سے فرمائی۔ (ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب الأمر بالإیمان باللٰہ تعالی…، جزء من رقم الحدیث ۲۶-(۱۸)، ۱/۴۸-۴۹)۔