کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 254
یَظْہَرَلَہُمْ کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی: {کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَ ہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی أَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی أَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ أَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ}[1]،[2] {وَیُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ}: یعنی وہ ارادہ رکھتے ہیں، کہ تمہاری اور جنگجو مسلح گروہ کی مڈبھیڑ ہو، تاکہ وہ تمہیں ان پر کامیابی دیں، تمہاری ان کے خلاف نصرت فرمائیں، اپنے دین کو غالب کریں، کلمہ اسلام کو بلند کریں اور اسے سب ادیان پر غالب فرمائیں۔ وہ معاملات کے انجام سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ وہ ہی اپنے حسنِ تدبیر سے تمہارے (معاملات کی) تدبیر کرتے ہیں، اگرچہ بندے ظاہری صورت حال کی بنا پر اس کے برعکس پسند کرتے ہیں۔ جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ میں ہے: [ترجمہ: تم پر لڑنا فرض کر دیا گیا ہے، اگرچہ وہ تمہیں ناپسند ہے اور ہو سکتا ہے، کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے، کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بُری ہو اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے]۔ ۳: شیخ ابوبکر جزائری نے تحریر کیا ہے: مِنْ ھِدَایَۃِ الْآیَاتِ تَقْرِیْرُ قَاعِدَۃٍ: {وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ}[3]
[1] سورۃ البقرۃ / الآیۃ ۲۱۶۔ [2] تفسیر ابن کثیر ۲/۳۱۹-۳۲۰؛ نیز ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۴/۷؛ و تفسیر المنار ۹/۶۰۰-۶۰۱؛ و تفسیر التحریر و التنویر ۹/۲۶۴۔ [3] ملاحظہ ہو: أیسر التفاسیر ۲/۱۲۱۔