کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 252
حق کے واضح ہو جانے کے بعد آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے، گویا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہوں اور وہ (اُسے) دیکھ رہے ہو۔ اور جب اللہ تعالیٰ تم سے دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتے تھے، کہ یقینا وہ تمہارے لیے ہے (یعنی وہ تمہارے ہاتھ آ جائے گی) اور تم پسند کرتے تھے، کہ غیر مسلّح (جماعت) تمہارے ہاتھ آ جائے اور اللہ تعالیٰ ارادہ رکھتے ہیں، کہ حق کا حق ہونا ثابت ہو جائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دیں، تاکہ وہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کر دیں، اگرچہ مجرم لوگ ناپسند کریں]۔ اس میں حکمت: اہل اسلام کی رغبت کے باوجود، تجارتی قافلے کے، نہ پانے اور مسلمانوں کے ایک گروہ کی ناپسندیدگی کے باوجود، مسلح قریش سے مڈبھیڑ میں عظیم حکمت تھی۔ حضراتِ مفسرین نے اسے خوب بیان کیا ہے۔ ذیل میں تین مفسرین کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: ۱: علامہ زمخشری رقم طراز ہیں: ’’یَعْنِيْ أَنَّکُمْ تُرِیْدُوْنَ الْفَائِدَۃَ الْعَاجِلَۃَ وَسَفْسَافَ الْأُمُوْرِ، وَأَنْ لَّا تَلْقَوْا مِمَّا یَرْزَؤُکُمْ فِيْ أَبْدَانِکُمْ وَأَحْوَالِکُمْ،[1] وَاللّٰہُ یُرِیْدُ مَعَالِيْ [2]
[1] طبع شدہ [أحْوَالَکُمْ] ہے، لیکن شاید درست [أمْوَالَکُمْ] ہے۔ وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أعْلَمُ۔ [2] طبع شدہ [مَعَانِيْ] ہے، لیکن شاید درست [مَعَالِيْ] ہے۔ وَ اللّٰہُ تَعَالٰی أعْلَمُ۔