کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 231
وَقَضَآئِہٖ ھَانَتْ عَلَیْہِ الْمَصَائِبُ، وَلَمْ یَجِدْ مَرَارَۃَ شَمَاتَۃِ الْأَعْدَائِ وَتَشْفِّيْ الْحَسَدَۃِ۔ {ہُوَ مَوْلٰنَا}: أَيْ: نَاصِرُنَا وَجَاعِلُ الْعَاقِبَۃِ لَنَا وُمُظْہِرُ دِیْنِہٖ عَلٰی جَمِیْعِ الْأَدْیَانِ۔ وَالتَّوَکُّلُ عَلَی اللّٰہِ تَفْوِیْضُ الْأُمُوْرِ إِلَیْہِ، وَالْمَعْنٰی أَنَّ مِنْ حَقِّ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنْ یَجْعَلُوْا تَوَکُّلَہُمْ مُخْتَصًّا بِاللّٰہِ سُبْحَانَہٗ لَا یَتَوَکَّلُوْنَ عَلٰی غَیْرِہٖ۔[1] جب انہوں نے یہ بات کہی،[2] تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا، کہ وہ انہیں جواب میں کہیں: [ترجمہ: آپ کہہ دیجیے: ہمیں ہرگز نہیں پہنچے گا، مگر جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دیا] یعنی لوحِ محفوظ یا ہم پر نازل کردہ کتاب میں۔ اس جواب کا فائدہ یہ ہے، کہ جب انسان کو معلوم ہو جائے، کہ اللہ تعالیٰ نے جو مقدّر کیا ہے، وہ ہونے والا ہے اور جو خیر یا شر اُسے پہنچی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور قضا سے ہے، تو اس پر مصیبتوں کا برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں پھر اسے دشمنوں کے اُس کی تکلیف پر خوشیاں منانے اور حاسدوں کے شاداں و فرحاں ہونے کی بنا پر اذیت نہیں پہنچتی۔
[1] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲/۵۳۷۔ [2] اس میں سابقہ آیت میں ذکر کردہ بات کی طرف اشارہ ہے، اور وہ آیت یہ ہے: {إِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَ إِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ أَخَذْنَآ أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ ہُمْ فَرِحُوْنَ} سورۃ التوبۃ / الآیۃ ۵۰۔ [ترجمہ: اور اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو کہتے ہیں، کہ ہم نے تو اپنا معاملہ پہلے سے ٹھیک کر رکھا ہے اور پیٹھ پھیر کر خوشیاں مناتے ہوئے چل دیتے ہیں]۔ یعنی ہم حزم و احتیاط کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے لڑائی کے لیے نہ نکلے، تو تکلیف سے محفوظ رہے۔ مسلمانوں نے بے احتیاطی سے کام لیا۔ لڑائی کے لیے نکلے اور مصیبت اٹھانا پڑی۔