کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 225
کو اُن سے روکنے کا حق ہے؟] انہوں نے جواب دیا: ’’نہیں‘‘۔ انہوں [ام سلیم رضی اللہ عنہا ] نے کہا: ’’فَاحْتَسِبْ اِبْنَکَ۔‘‘[1] ’’اپنے بیٹے کے واپس لیے جانے پر (صبر کر کے اللہ تعالیٰ سے) ثواب حاصل کیجیے۔‘‘ اس روایت میں ہم دیکھتے ہیں، کہ حضرت ام سلیم نے اپنے بیٹے کی وفات پر اپنے شوہر کو صبر و احتساب کی ترغیب دیتے ہوئے، اس حقیقت کو اجاگر کیا، کہ ان دونوں کا بیٹا، ان کی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی چیز تھی۔ رب ذوالجلال نے انہیں عاریتاً عطا فرمایا ہوا تھا۔ اس طرح چیز دینے والے کو حق ہوتا ہے، کہ جب چاہے، اپنی چیز واپس لے لے۔ انہیں بیٹے کو اپنے پاس روکنے کا حق نہیں تھا اور ان کے لیے اس کے جانے کے بعد بے صبری کرنا بھی مناسب نہیں۔ شرحِ حدیث: امام نووی لکھتے ہیں: ’’وَ ضَرْبُہَا لِمِثْل الْعَارِیَۃِ دَلِیْلٌ لِکَمَالِ عِلْمِہَا وَ فَضْلِہَا وَ عِظَمِ إِیْمَانِہَا وَ طَمَأْنِیْنَتِہَا۔‘‘[2] عاریتاً چیز کی مثال بیان کرنے میں اُن کے علم و فضل کے کمال، اُن کے عظیم ایمان اور ان کے اطمینانِ قلب کی دلیل ہے۔ 
[1] صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ ، باب من فضآئل أبي طلحۃ الأنصاري رضی اللہ عنہ ، جزء من رقم الحدیث ۱۰۷ـ (۲۱۴۴)، ۴؍ ۱۹۰۹۔ اس قصے کی تفصیل کتاب کے صفحات … میں دیکھیے۔ [2] شرح النووي ۱۶/۱۱۔