کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 224
اپنی ہی مملوکہ چیز لیتے ہیں، اس لیے اس کے جانے پر جزع و فزع درست نہیں۔
شرحِ حدیث:
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’جس کو لینے کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے، انہوں نے ہی وہ دیا تھا، سو اُن کا لینا اپنی ہی چیز کا لیناہے، اس لیے بے صبری کا کوئی جواز نہیں، کیونکہ جس کے پاس امانت رکھی جائے، اس کے لیے مناسب نہیں، کہ امانت کے واپس طلب کرنے پر جزع فزع کرے۔‘‘[1]
د: امام مسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا:
’’ابو طلحہ کا امِ سلیم رضی اللہ عنہ سے ایک بیٹا فوت ہو گیا، تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا:
’’مجھ سے پہلے کوئی ابو طلحہ کو اس کے بیٹے کی وفات کی خبر نہ دے۔‘‘
انہوں نے بیان کیا: ’’وہ آئے، تو انہوں (یعنی ام سلیم رضی اللہ عنہا ) نے انہیں رات کا کھانا پیش کیا، تو انہوں نے کھایا پیا۔‘‘
انہوں نے (مزید) بیان کیا: ’’انہوں نے اُن (یعنی اپنے خاوند) کے لیے اپنی بہترین قسم کی زیبائش کی، تو انہوں نے ان کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کیے۔ پس جب اُنہوں نے دیکھا، کہ وہ سیر ہو چکے ہیں اور اُن سے ازدواجی تعلق بھی قائم کر چکے ہیں، تو کہنے لگی:
’’یَا أَبَا طَلْحَۃَ! أَرَأَیْتَ لَوْ أَنَّ قَوْمًا أَعَارُوْا عَارِیَتَہُمْ أَہْلَ بَیْتٍ، فَطَلَبُوْا عَارِیَتَہُمْ، أَلَہُمْ أَنْ یَّمْنَعُوْہُمْ؟‘‘
[اے ابو طلحہ! آپ کی (اس بارے میں) کیا رائے ہے، کہ ایک قوم نے کسی گھر والوں کو عاریتاً کوئی چیز دی، پھر انہوں نے اس چیز کو واپس طلب کیا، تو کیا انہیں اس چیز
[1] فتح الباري ۳/۱۵۷۔