کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 223
اور کنبے کی بجائے اپنی نیکیوں یا برائی کے ساتھ حاضر ہو گا۔
جب بندے کے آغاز، اس کو دی ہوئی چیزوں اور اس کی اپنی انتہا کی یہ صورتِ حال ہے، تو وہ کسی موجود چیز پر کیونکر اترائے؟ اور کھوئی ہوئی چیز پر غم زدہ کیونکر ہو؟ سو اس (یعنی مصیبت کے آنے پر پریشانی) کا عظیم ترین علاج بندے کا اپنے آغاز و انجام میں غور و فکر کرنا ہے۔‘‘[1]
ج: امام بخاری نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کا قاصد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، کہ وہ اپنے بیٹے کے جان کنی کے عالَم میں ہونے کی بنا پر آپ کو تشریف لانے کی درخواست کر رہی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواب میں) فرمایا:
’’اِرْجِعْ فَأَخْبِرْہَا أَنَّ لِلّٰہِ مَا أَخَذَ، وَلَہٗ مَا أَعْطٰی، وَکُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّی۔
فَمُرْہَا فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ۔‘‘[2]
’’لوٹ جاؤ اور انہیں خبر دو، کہ
بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، جو اُنہوں نے لیا اور اُن ہی کے لیے ہے، جو انہوں نے عطا فرمایا اور ان کے ہاں ہر چیز مقررہ مدّت کے ساتھ ہے۔
سو اُنہیں حکم دیجیے،
کہ صبر کریں اور (اللہ تعالیٰ سے) اجر و ثواب طلب کریں۔‘‘
اس حدیث میں ہم دیکھتے ہیں، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی کو، اس کے بیٹے کی موت کے وقت آنے پر، یہ بات یاد کروائی، کہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو لے لیتے ہیں، تو وہ
[1] زاد المعاد ۴/۱۸۹۔
[2] صحیح البخاري، کتاب التوحید، باب قول اللہ تبارک و تعالیٰ {قُلِ ادْعُوْا اللّٰہَ أَوِ ادْعُوْا الرَّحْمٰنَ …: جزء من رقم الحدیث ۷۳۷۷، ۱۳/۳۵۸۔