کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 222
ہوئے ہیں، کہ جب بندہ اُن سے اچھی طرح آگاہ ہو جائے، تو وہ اپنی مصیبت کو بھول جاتا ہے:
ان دو میں سے پہلی بات یہ ہے، کہ یقینا بندہ، اُس کا کنبہ اور اُس کا مال حقیقۃً اللہ عزوجل کی ملکیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے بندے کو (یہ سب کچھ) عاریتاً دیا ہے۔ سو جب وہ اُس سے لیتے ہیں، تو وہ ایسے ہی ہے، جیسے کسی کو عاریۃً چیز دینے والا، اُس سے اپنی چیز واپس لیتا ہے۔
مزید برآں اِس لی جانے والی چیز کی دو اور حالتیں ہوتی ہیں: ایک لینے سے پیشتر، کہ وہ پہلے لینے والے کے پاس موجود نہیں تھی، اور ایک واپس لیے جانے کے بعد، کہ وہ اس کے پاس موجود نہیں رہی۔ بندے کی ملکیت تو تھوڑے سے وقت میں عاریتاً لے کر اس سے فائدہ اٹھانے تک محدود تھی۔
علاوہ ا زیں وہ (بندہ) تو اُسے عدم سے وجود میں نہیں لایا، کہ وہ (چیز) اس کی حقیقی ملکیت بن جائے اور نہ ہی وہ، اس کے وجود میں آنے کے بعد، آفات سے اس کی حفاظت کر سکتا اور اس کے وجود کو باقی رکھ سکتا ہے۔ اُس (بندے) کی اس (کے عدم و وجود) میں کوئی تاثیر نہیں اور نہ ہی (وہ چیز) اُس کی حقیقی ملکیت ہے۔
نیز وہ امر و نہی کے پابند غلام کی مانند، حکمِ (الٰہی) کے مطابق، اس میں تصرف کر سکتا ہے۔ وہ اس میں حقیقی مالکوں کی طرح اسے استعمال کرنے کا مجاز نہیں۔ اسی بنا پر اس کے لیے صرف وہی تصرفات جائز ہیں، جو اُس کے حقیقی مالک (اللہ جل جلالہ) کے حکم کے مطابق ہوں۔
دوسری بات: بندے کا لوٹنا اور آخری ٹھکانا اس کے مولائے حق اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اسے لازماً دنیا کو اپنے پیچھے چھوڑ کر جانا ہے۔ وہ اپنے رب تعالیٰ کے حضور اسی طرح تنہا آئے گا، جیسے کہ انہوں نے اُسے پہلی بار پیدا فرمایا۔ وہ اپنے اہل، مال