کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 219
الْأَجْرِ ، فَکَوْنُ الْعَبْدُ لِلّٰہِ وَرَاجِعًا إِلَیْہِ مِنْ أَقْوٰی أَسْبَابِ الصَّبْرِ۔‘‘[1]
’’{قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ}: [انہوں نے کہا: ’’بلاشبہ ہم اللہ کے لیے ہیں‘‘]
یعنی اللہ تعالیٰ کے غلام اور ان کے حکم و تصرف کے پابند۔ ہماری جانوں اور مالوں میں سے کوئی چیز بھی ہماری نہیں۔ جب انہوں نے ان میں سے کسی چیز کے ساتھ ہمارا امتحان لیا، تو ارحم الراحمین نے اپنے غلاموں اور ان کے مالوں میں تصرف فرمایا، سو اُن پر کسی قسم کا اعتراض نہیں، بلکہ بندے کی عبودیت کے کمال میں سے اس بات سے آگاہی ہے، کہ آزمائش مالکِ حکیم (بہت زیادہ حکمت والے مالک) کی جانب سے ہے، جو بندے کے ساتھ اس کی اپنی جان سے زیادہ شفقت کرنے والے ہیں۔ یہ آگاہی اللہ تعالیٰ (کے فیصلے) پر رضا اور بندے کے لیے تدبیرِ خیر پر شکر کا موجب بنتی ہے، اگرچہ اسے اس (خیر) کا ادراک بھی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہونے کے ساتھ ساتھ، ہم بلاشبہ لوٹنے کے دن ان ہی کی طرف پلٹنے والے ہیں، تو وہ (اس دن) ہر عمل کرنے والے کو اُس کے عمل کا بدلہ دیں گے۔ اگر ہم نے ثواب حاصل کرنے کی خاطر صبر کیا، تو ہم اُن کے ہاں پورا پورا اجر پائیں گے۔ اگر ہم نے بے صبری کی اور (اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر) ناراض ہوئے، تو ہمارا نصیب (اللہ تعالیٰ کی) ناراضی اور اجر سے محرومی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ بندے کا اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہونے اور اُن ہی کی طرف پلٹنے (کا عقیدہ) صبر کے قوی ترین اسباب میں سے ہے۔‘‘
ب: امام ابن ماجہ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، کہ بلاشبہ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے اُن سے بیان کیا، کہ بلاشک انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
[1] تفسیر السعدي ص ۷۳۔