کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 218
’’{الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ}: یعنی انہوں نے یہ الفاظ اپنی (اندرونی) کیفیت کا اظہار اور اپنے ایمان کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے کہی۔ یہ مراد نہیں، کہ انہوں نے یہ بات صرف زبان سے کہی، بلکہ مقصود یہ ہے، کہ یہ معنیٰ اُن (کے دل و دماغ) میں رچ بس چکا ہے۔ ان کے ایمان میں یہ بات داخل ہو چکی ہے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور ملکیت ہیں، وہ ان ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں اور ہر چیز کی مکمل ملکیت اُن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس اعتقاد و شعور والے ایمان و تسلیم و رضا کے ساتھ صبر کے ایسے مستحق ہوتے ہیں، کہ جزع و فزع ان کی جانوں پر غالب نہیں آتی، مصیبتیں اُن کی ہمتوں کو پست نہیں کرتیں، بلکہ اُنہیں صبر و استقلال میں زیادہ کرتی ہیں اور وہ ہی فائز المرام ہوتے ہیں۔
iv: شیخ سعدی نے تحریر کیا ہے:
’’{قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ}: أَيْ: مَمْلُوْکُوْنَ لِلّٰہِ مُدَبَّرُوْنَ تَحْتَ أَمْرِہٖ وَتَصْرِیْفِہٖ، فَلَیْسَ لَنَا مِنْ أَنْفُسِنَا وَأَمْوَالِنَا شَیْئٌ، فَإِذَا ابْتَلَاناَ بِشَیْئٍ مِنْہَا، فَقْدَ تَصَرَّفَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ بِمَمَالِیْکِہٖ وَأَمْوَالِہِمْ، فَلَا اِعْتَرَاضَ عَلَیْہِ، بَلْ مِنْ کَمَالِ عُبُوْدِیَّۃِ الْعَبْدِ عِلْمُہٗ بِأَنَّ وُقُوْعَ الْبَلِیَّۃِ مِنَ الْمَالِکِ الْحَکِیْمِ الَّذِيْ ہُوَ أَرْحَمُ بِعَبْدِہٖ مِنْ نَفْسِہٖ، فَیُوْجِبُ لَہٗ ذٰلِکَ الرِّضَا عَنِ اللّٰہِ وَالشُّکْرَ لَہٗ عَلٰی تَدْبِیْرِہٖ لِمَا ہُوَ خَیْرٌ لِعَبْدِہٖ،وَإِنْ لَّمْ یَشْعُرْ بِذٰلِکَ۔
وَمَعَ أَنَّنَا مَمْلُوْکُوْنَ لِلّٰہِ فَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ یَوْمَ الْمَعَادِ، فَمُجَازٍ کُلَّ عَامِلٍ بِعَمَلِہٖ، فَإِنْ صَبَرْنَا وَاحْتَسَبْنَا وَجَدْنَا أَجَرْنَا مُوَفَّرًا عِنْدَہٗ، وَإِنْ جَزَعْنَا وَسَخَطْنَا لَمْ یَکُنْ حَظُّنَا إِلَّا السُّخْطُ وَفَوَاتُ