کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 212
خُوْطِبَ الْمُؤْمِنُوْنَ بِذٰلِکَ لِیُوَطِّنُوْا أَنْفُسَہُمْ عَلٰی اِحْتِمَالِ مَا سَیَلْقَوْنَ مِنَ الْأَذٰی وَ الشَّدَآئِدِ، وَ الصَّبْرِ عَلَیْہَا، حَتّٰی إِذَا لَقُوْہَا، لَقُوْہَا وَ ہُمْ مُسْتَعِدُّوْنَ، لَا یَرْہَقُہُمْ مَا یَرْہَقُ مَنْ یُصِیْبُہُ الشِّدَّۃُ بَغْتَۃً فَیُنْکِرُہَا، وَ تَشْمَئِزُّ مِنْہَا نَفْسُہٗ۔[1] اہلِ ایمان کو اس کے ساتھ خطاب کیا گیا، تاکہ وہ آنے والی اذیت اور شدید حادثات کے برداشت کرنے اور ان پر صبر کرنے کے لیے اپنے نفوس کو تیار کر لیں۔ جب ان پر وہ آئیں، تو وہ ان کا ایسے شخص کی طرح استقبال کریں، جو پہلے سے اس کے لیے تیار ہو۔ ان کی کیفیت اس شخص کی مانند نہ ہو، جس پر اچانک سختی آئے، تو وہ اُسے ناپسند کرے اور وہ اس پر گراں ہو۔ ii: قاضی ابو سعود نے قلم بند کیا ہے: {لَتُبْلَوُنَّ} شُرُوْعٌ فِيْ تَسْلِیَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَ مَنْ مَّعَہٗ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَمَّا سَیَلْقَوْنَہٗ مِنْ جِہَۃِ الْکَفَرَۃِ مِنَ الْمَکَارِہٖ، إِثْرَ تَسْلِیَتِہِمْ عَمَّا قَدْ وَقَعَ مِنْہُمْ، لِیُوَطِّنُوْا أَنْفُسَہُمْ عَلٰی اِحْتِمَالِہٖ عِنْدَ وُقُوْعِہٖ، وَ یَسْتَعِدُّوْا لِلِقَائِہٖ، وَ یُقَابِلُوْہُ بِحُسْنِ الصَّبْرِ وَ الثُّبَاتِ، فَإِنَّ ہُجُوْمَ الْأَوْجَالِ مِمَّا یُزَلْزِلُ أَقْدَامُ الرِّجَالِ، وَ الْاِسْتِعْدَادُ لِلْکُرُوْبِ مِمَّا یَہُوْنُ الْخُطُوْبُ۔‘‘[2] {لَتُبْلَوُنَّ} [یعنی یقینا تم آزمائش میں ڈالے جاؤ گے] کافروں کی جانب سے تکلیف آنے سے پیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اہلِ ایمان کو تسلّی دینے کا آغاز ہے، تاکہ وہ اذیت کے آنے سے قبل اپنی جانوں کو اس کے برداشت کرنے کے لیے
[1] ملاحظہ ہو: الکشاف ۱/۴۸۶۔ [2] ملاحظہ ہو: تفسیر أبي السعود ۲/۱۲۳۔