کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 210
بندوبست کر لیں۔ اللہ کریم حضرات مفسرین کو جزائے خیر عطا فرمائیں، کہ انہوں نے اس بارے میں حقیقت کو خوب نکھارنے کی سعی فرمائی ہے۔ ذیل میں ان میں سے چار کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: i: علامہ زمخشری رقم طراز ہیں: ’’وَ إِنَّمَا وَعَدَہُمْ ذٰلِکَ قَبْلَ کَوْنِہٖ لِیُوَطِّنُوْا عَلَیْہِ نُفُوْسَہُمْ۔‘‘[1] ’’اللہ تعالیٰ نے (بیان کردہ بات کے) واقع ہونے سے قبل اس کا ان سے وعدہ فرما دیا، تاکہ وہ اس (پر صبر کرنے) کے لیے اپنے نفوس کو تیار کر لیں۔‘‘ ii: علامہ رازی نے آنے والی ابتلاؤں کی خبر دینے کی حکمتوں کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’أَحَدُہَا لِیُوَطِّنُوْا أَنْفُسَہُمْ عَلَی الصَّبْرِ عَلَیْہَا إِذَا وَرَدَتْ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ أَبْعَدَ لَہُمْ عَنِ الْجَزَعِ ، وَ أَسْہَلَ عَلَیْہِمْ بَعْدَ الْوُرُوْدِ۔‘‘[2] ’’ان میں سے ایک (حکمت) یہ ہے، کہ جب وہ (ابتلائیں) آ جائیں، تو وہ پہلے ہی سے اپنے نفوس کو صبر کرنے کی خاطر آمادہ کر چکے ہوں گے۔ اس طرح یہ بات انہیں بے صبری سے بہت دُور کرنے والی اور (مصیبتوں کے) آنے کے بعد، انہیں برداشت کرنے میں بہت آسانی پیدا کرنے والی ہو گی۔‘‘ iii: قاضی ابو سعود نے تحریر کیا ہے: وَ إِنَّمَا أُخْبِرَ بِہٖ قَبْلَ الْوُقُوْعِ لِیُوَطِّنُوْا عَلَیْہِ نُفُوْسَہُمْ، وَ یَزْدَادُ
[1] الکشاف ۱/۳۲۳۔ [2] التفسیر الکبیر ۴/۱۴۹-۱۵۰۔