کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 204
جُمِعَتْ یَدَاہُ إِلٰی عُنُقِہٖ بِحَیْثُ لَا یَتَمَکَّنُ مِنْ إِخْرَاجِہَا وَ لَا حَرْکَتِہَا۔ وَ کُلَّمَا أَرَادَ إِخْرَاجَہَا أَوْ تَوْسِیْعَ تِلْکَ الْجُبَّۃِ، لَزِمَتْ کُلُّ حَلَقَۃٍ مِنْ حَلَقِہَا مَوْضِعَہَا، وَ ہٰکَذَا الْبَخِیْلُ کُلَّمَا أَرَادَ أَنْ یَّتَصَدَّقَ مَنَعَہٗ بُخْلُہٗ، فَبَقِيَ قَلْبُہٗ فِيْ سِجْنِہٖ کَمَا ہُوَ۔ وَالْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ ، اِنْشَرَحَ لَہَا قَلْبُہٗ ، وَانْفَسَخَ بِہَا صَدْرُہٗ ، فَہُوَ بِمَنْزِلَۃِ اتّسَاعِ تِلْکَ الْجُبَّۃِ عَلَیْہِ ، فَکُلَّمَا تَصَدَّقَ ، اِتَّسَعَ وَانْفَسَخَ وَانْشَرَحَ ، وَقَوِيَ فَرْحُہٗ وَعَظُمَ سُرُوْرُہٗ۔ وَلَوْ لَمْ یَکُنْ فِيْ الصَّدَقَۃِ إِلَّا ہٰذِہِ الْفَائِدَۃُ وَحْدَہَا ، لَکَانَ الْعَبْدُ حَقِیْقًا بِالْاِسْتِکْثَارِ مِنْہَا ، وَالْمُبَادَرَۃِ إِلَیْہَا۔‘‘[1] ’’جب بخیل احسان سے روکا ہوا، نیکی اور خیر سے منع کیا ہوا ہوتا ہے، تو اس کی جزا بھی اس کے عمل کی جنس سے (ہی) ہوتی ہے۔ اس کا سینہ تنگ، انشراح سے محروم، تنگ دست، کم ہمت، قلیل خوشی والا، زیادہ تفکرات، پریشانیوں اور غموں والا ہوتا ہے۔ اس کی حاجت پوری ہونے کو نہیں آتی، کسی مراد کے پانے میں اس کی اعانت نہیں کی جاتی۔ وہ اس شخص کی مانند ہوتا ہے، جس (کے جسم) پر لوہے کا جبہ ہو، اس کے ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ اس طرح جوڑ دئیے ہوں، کہ وہ انہیں نہ باہر نکال پائے اور نہ ہی انہیں حرکت دے سکے۔ جب وہ انہیں باہر نکالنا چاہے، یا جبہ کو کشادہ کرنا چاہے، اس (درع) کا ہر حلقہ اپنی جگہ سے چمٹ جائے۔ اس طرح بخیل، جب بھی صدقہ کرنا چاہے، اس کا بخل اسے روک دیتا ہے، تو اس کا دل پہلے کی طرح اپنی قید ہی میں رہتا ہے۔ صدقہ کرنے والا، جب بھی صدقہ کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کا دل شاداں اور سینہ
[1] صحیح الوابل الصیّب ص ۶۶ ـ ۶۷۔۔