کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 202
وَ أَہْلُ الْأَرْضِ کُلُّہُمْ مُقِرُّوْنَ بِہٖ، لِأَنَّہُمْ جَرَّبُوْہُ۔‘‘[1]
’’یہ ایسا کلام ہے، کہ اس کا وجود اس کی برہان اور اس کا واقع ہونا اس کی دلیل ہے، کیونکہ مصیبتوں کے دُور کرنے میں صدقہ کی تاثیر بہت عجیب ہے، اگرچہ صدقہ کرنے والا فاجر یا ظالم، بلکہ کافر کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کے ذریعے قسم قسم کی مصیبتوں کو ٹال دیتے ہیں۔ یہ بات عام و خاص سب لوگوں کو معلوم ہے۔ روئے زمین کے تمام لوگ اس کا اقرار کرتے ہیں، کیونکہ یہ حقیقت اُن کی آزمودہ ہے۔‘‘
حضرت امام رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
’’وَفِيْ تَمْثِیْلِ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم ذٰلِکَ بِمَنْ قُدِّمَ لِیُضْرَبَ عُنُقُہٗ ، فَافْتَدٰی نَفْسَہٗ مِنْہُمْ بِمَا لَہٗ کِفَایَۃٌ، فَإِنَّ الصَّدَقَۃَ تَفْدِيْ الْعَبْدَ مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی، فَإِنَّ ذُنُوْبَہٗ وَ خَطَایَاہُ تَقْتَضِيْ ہَلَاکَہٗ ، فَتَجِيْئُ الصَّدَقَۃُ تَفْدِیْہِ مِنَ الْعَذَابِ، وَ تَفُکُّہٗ مِنْہُ۔‘‘[2]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذکر کردہ مثال: کہ [جس شخص کی گردن اڑانے کی خاطر اسے آگے لایا گیا، تو اس نے مال دے کر اپنی جان کو چھڑا لیا]، (حقیقت سمجھانے کے لیے بہت) کافی ہے، کیونکہ بلاشبہ صدقہ بندے کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاتا ہے۔ (جب کہ) اس کے گناہ اور خطائیں اس کی ہلاکت کا تقاضا کرتی ہیں، تو صدقہ آ کر اُس کا عذاب سے چھٹکارا کروا دیتا ہے۔‘‘
د: امام بخاری اور امام مسلم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں، کہ انہوں نے بیان کیا:
ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم مَثَلَ الْبَخِیْلِ وَ الْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ
[1] صحیح الوابل الصیب من الکلم الطیّب ص ۶۳۔
[2] المرجع السابق ص ۶۴۔