کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 199
مصیبتوں سے بچانے میں صدقہ کی افادیت کے دلائل: ہمارے گناہ رب کریم کو ناراض کرتے اور اُن کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔ صدقہ گناہوں کو مٹاتا، اللہ تعالیٰ کے غصے کو ٹھنڈا کرتا اور بندے کو عذاب سے محفوظ کر دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے صدقہ میں یہ برکت رکھی ہے، کہ اس کی وجہ سے آئندہ آنے والی مصیبتیں ٹل جاتی ہیں، صدقہ کرنے والے کے سینے میں انشراح پیدا ہوتا ہے، اسے شادمانی اور سرور میسر آتا ہے۔ سابقہ اور آئندہ معاملات کے حوالے سے لاحق ہونے والی پریشانیوں اور تفکرات سے اللہ تعالیٰ نجات عطا فرما دیتے ہیں۔ اسی سلسلے میں ذیل میں توفیقِ الٰہی سے چار دلائل کے حوالے سے گفتگو کی جا رہی ہے: ا: امام احمد اور اور امام ابو یعلیٰ نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ یَا کَعْبَ بْنَ عُجْرَۃَ! اَلصَّلَاۃُ قُرْبَانٌ ، وَ الصَّوْمُ جُنَّۃٌ، وَ الصَّدَقَۃُ تُطْفِیئُ الْخَطِیْئَۃَ کَمَا یُطْفِیئُ الْمَآئُ النَّارَ۔‘‘[1] [’’اے کعب بن عجرۃ! نماز (اللہ تعالیٰ کی) قربت (کا ذریعہ) ہے، روزہ (دوزخ کی آگ کے مقابلے میں ڈھال ہے اور صدقہ گناہ کو اس طرح ختم کر دیتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے‘‘]۔ ب: امام طبرانی نے حضرت معاویہ بن حَیْدہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے
[1] المسند ، جزء من رقم الحدیث ۱۵۲۸، ۲۳؍۴۲۵ ؛ و مسند أبي یعلٰی ، جزء من رقم الحدیث ۲۳۳ـ (۱۹۹۹) ، ۳؍ ۴۷۶۔ حافظ منذری اور شیخ البانی نے ابو یعلیٰ کی روایت کو [صحیح] کہا ہے۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے المسند کی سند کے متعلق لکھتے ہیں، کہ وہ [سند مسلم کی شرط پر قوی] ہے اور ابن خثیم کے علاوہ باقی راویان ثقہ ہیں اور وہ [صدوق لا بأس بہ] [یعنی سچے ہیں اور ان میں کچھ حرج والی بات نہیں] ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترھیب ۱؍۵۱۹ ؛ وھامش المسند ۲۳؍۴۲۵)۔