کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 192
سب سے زیادہ جاننے والے اور ان کے دین کی سب سے زیادہ سمجھ رکھنے والے تھے، اس لیے وہ اس سبب (یعنی دعا) اور اس کی شروط و آداب کے بارے میں دیگر سب لوگوں کے مقابلے میں زیادہ درست طریقے والے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دشمن کے خلاف مدد طلب کرتے تھے۔ اُن کا عظیم ترین لشکر دُعا تھی اور وہ صحابہ سے فرمایا کرتے تھے: ’’تمہاری نصرت کثرت سے نہیں کی جاتی۔ بلاشبہ تمہاری مدد تو آسمان سے ہوتی ہے۔‘‘ وہ (یہ بھی) فرمایا کرتے تھے: ’’بلاشبہ مجھے دعا کی قبولیت کی فکر نہیں ہوتی، بلکہ مجھے دعا کی فکر ہوتی ہے۔ جب مجھے دعا کی توفیق عطا کی گئی، تو قبولیت یقینا اس کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘ امام ابن قیم رحمہ اللہ ہی لکھتے ہیں: ایک شاعر نے اسی معنی کو لے کر اسے شعر کی صورت میں پیش کیا۔ اُس نے کہا: لَوْ لَمْ تُرِدْ نَیْلَ مَا أَرْجُو وأَطْلُبُہُ مِنْ جُوْدِ کَفَّیْکَ مَا عَلَّمْتَنِيْ الطَلَبَا [ترجمہ: [میں آپ کے دستِ کرم سے جس چیز کی امید رکھے ہوئے، اُسے طلب کر رہا ہوں، اگر آپ میرے لیے اُس کا ارادہ نہ فرماتے، تو آپ مجھے اُسے طلب کرنا ہی نہ سکھلاتے]۔ فَمَنْ أُلْہِمَ الدُّعَائَ، فَقَدْ أُرِیْدَ بِہِ الْإِجَابَۃُ، فَإِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ یَقُوْلُ: