کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 187
ہیں۔[1] ملا علی قاری رحمہ اللہ (وَ مِمَّا لَمْ یَنْزِلْ) کی شرح میں رقم طراز ہیں: کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو اس سے پھیر دیں اور دُور کر دیں یا اس کے آنے سے پہلے اپنی تائید سے اس کی ایسی نصرت فرمائیں، کہ مصیبت کے آنے پر اس کا دباؤ خفیف ہو جائے۔[2] ج: امام حاکم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لَا یُغْنِيْ حَذَرٌ مِنْ قَدْرٍ، وَ الدُّعَآئُ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَ مِمَّا لَمْ یَنْزِلْ، وَ إِنَّ الْبَلَآئَ لَیَنْزِلُ، فَیَتَلَقَّاہُ الدُّعَآئُ، فَیَعْتَلِجَانِ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔‘‘[3] [’’احتیاط تقدیر سے نہیں بچا سکتی۔ دعا نازل شدہ مصیبت (کے دُور کرنے)اور غیر نازل شدہ مصیبت (سے محفوظ کرنے) میں نفع پہنچاتی ہے۔ بلاشبہ مصیبت اترتی ہے، تو دعا کی اس کے ساتھ مڈبھیڑ ہوتی ہے، پھر وہ دونوں روزِ قیامت تک ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘]۔ د: امام ترمذی نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا یَرُدُّ الْقَضَآئَ إِلَّا الدُّعَآئُ، وَ لَا یَزِیْدُ فِيْ الْعُمُرِ إِلَّا الْبِرُّ۔‘‘[4]
[1] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۵/۱۵۔ [2] ملاحظہ ہو: مرقاۃ المفاتیح ۵/۱۵۔ نیز ملاحظہ ہو: شرح الطیبي ۵/۱۷۰۹۔ [3] المستدرک علی الصحیحین، کتاب الدعآء، ۱/۴۹۲۔ شیخ البانی نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح الجامع الصغیر، رقم الحدیث ۷۷۳۹، ۲/۱۲۷۹)۔ [4] جامع الترمذي ، أبواب القدر، باب ما جاء لا یردّ القدر إلا الدعآء، رقم الحدیث ۲۲۲۵، ۶؍۲۸۹۔ شیخ البانی نے اسے [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن الترمذي ۲؍۲۲۵)۔