کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 186
[’’اور اس (یعنی دعا) کے مصیبت کے مقابلے میں تین قسم کے حالات ہیں: پہلی قسم: کہ وہ مصیبت سے زیادہ قوی ہو، تو وہ اسے دُور کر دیتی ہے۔ دوسری قسم: کہ وہ مصیبت کے مقابلے میں کمزور ہو اور مصیبت اس پر غالب آ جائے اور بندے کو مصیبت پہنچے، لیکن بسا اوقات وہ کمزور ہونے کے باوجود مصیبت کے زور کو ہلکا کر دیتی ہے۔ تیسری قسم: کہ وہ دونوں باہمی مقابلہ کریں اور ہر ایک دوسرے کو روکے‘‘]۔ ب: امام ترمذی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’إِنَّ الدُّعَآئَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَ مِمَّا لَمْ یَنْزِلْ، فَعَلَیْکُمْ عِبَادَ اللّٰہِ بِالدُّعَآئِ۔‘‘[1] [’’بلاشبہ نازل شدہ مصیبت (کے دُور کرنے) اور آنے والی مصیبت (سے بچاؤ) میں دعا نفع دیتی ہے، سو اللہ تعالیٰ کے بندو! دعا کو لازم کرو‘‘]۔ شرحِ حدیث: ملا علی قاری (إِنَّ الدُّعَائَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ) کی شرح میں لکھتے ہیں: اگر (تقدیر) معلَّق ہو، تو دعا کی وجہ سے مصیبت اُٹھ جاتی ہے اور اگر (تقدیر) مُحْکَمْ ہو، تو اس مصیبت پر صبر آ جاتا ہے اور اس کا برداشت کرنا اس کے لیے آسان اور سہل ہو جاتا ہے یا اس دعا کی برکت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُسے مصیبت پر ایسی رضا عطا فرما دیتے ہیں، کہ وہ اس مصیبت کے نہ ہونے کو پسند ہی نہیں کرتا، بلکہ وہ اس مصیبت سے اس طرح لطف اندوز ہوتا ہے، جیسے کہ دنیا والے نعمتوں سے لذت لیتے
[1] جامع الترمذي، أبواب الدعوات، باب، رقم الحدیث ۳۷۸۰، ۹/۳۷۴۔ شیخ البانی نے اسے [حسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن الترمذي ۳/۱۷۸)۔