کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 165
کے اقوال ملاحظہ فرمائیے:
i: علامہ نووی نے تحریر کیا ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ان لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے بیان فرمائی، لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس طرزِ عمل کو درست قرار دیا۔ وَ بِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ۔[1]
ii: علامہ محب طبری لکھتے ہیں:
بلاشبہ غار والوں نے اپنے اعمال کے ذریعے سے شفاعت نہیں کی، بلکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی، کہ اگر ان کے اعمال خالص تھے اور ان کے ہاں قبول کیے گئے، تو وہ اُن کا بدلہ اُن کے لیے غار کے منہ سے پتھر ہٹا کر کشادگی پیدا کرنے کی صورت میں فرما دیں۔[2]
iii: علامہ سبکی کبیر نے قلم بند کیا ہے:
حدیث میں عمل کا دکھلاوا بالکل ہی نہیں، کیونکہ ہر ایک کی بات یہ تھی:
[اگر آپ جانتے ہیں، کہ میں نے وہ (کام) آپ کی رضا طلب کرنے کی خاطر کیا]۔
ان میں سے ایک بھی اپنے عمل میں اخلاص (کی موجودگی) کا یقین نہیں رکھتا تھا، بلکہ انہوں نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کو سونپ دیا۔
[لہٰذا جب انہوں نے اپنے بہترین عمل میں اخلاص کے بارے میں جزم کے ساتھ بات نہیں کی، تو دیگر اعمال میں یہ صورتِ حال بطریقِ اولیٰ ہو گی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ اس جیسی صورتِ حال میں درست طریقہ یہ ہے، کہ بندہ اپنے قصور وار ہونے کا اعتقاد رکھے۔ اپنے ہر اس عمل کو ڈھونڈے، جس کے خالص ہونے کا اُسے گمان ہو۔ پھر اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کو سونپ دے اور دعا کو اللہ تعالیٰ کے حکم
[1] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ص ۵۶۸۔
[2] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۶/۵۱۰۔