کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 164
کیا، تو ان کی دعا قبول کی گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا تذکرہ ان کی تعریف کرتے ہوئے اور ان کے اچھے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا۔‘‘[1]
ii: حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں:
’’وَفِيْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ اِسْتِحْبَابُ الدُّعَائِ فِيْ الْکَرْبِ، وَالتَّقَرُّبُ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی بِذِکْرِ صَالِحِ الْعَمَلِ، وَاسْتَنْجَازُ وَعْدِہٖ بِسُؤَالِہٖ۔‘‘
’’اس حدیث میں مصیبت میں دعا اور نیک عمل کا تذکرہ کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی سعی کرنے کا استحباب ہے۔‘‘[2]
ایک اشکال:
امام نووی نے قاضی حسین اور بعض دیگر علماء سے نقل کیا ہے، کہ بارش طلب کرتے وقت ایسا کرنا مستحب ہے، پھر انہوں نے قاضی رحمہ اللہ کا بیان کردہ حسبِ ذیل اشکال ذکر کیا ہے:
شاید یہ کہا جائے: ’’اس میں ایک چیز (محلِ نظر) ہے اور وہ یہ ہے، کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حضور کلی محتاجی اور یکسر سپردگی نہیں اور دعا میں تو ایسے (ہی) ہونا چاہیے۔‘‘[3]
حافظ ابن حجر نے علامہ محب طبری کے حوالے سے بھی اشکال کا ذکر کیا ہے، کہ اس میں (اپنے) عمل کا دکھانا ہے اور استسقاء میں تو خود کو حقیر ظاہر کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے، کیونکہ وہ تو مقامِ عاجزی ہے۔[4]
اشکال کا جواب:
حضراتِ محدّثین رحمہ اللہ نے اس اشکال کا جواب دیا ہے۔ ذیل میں ان میں سے تین
[1] شرح النووي ۱۷/۵۶۔
[2] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۶/۵۰۹-۵۱۰۔
[3] ملاحظہ ہو: الأذکار، باب دعآء الإنسان و توسّلہ بصالح عملہ إلی اللہ تعالٰی، ص ۵۶۸۔
[4] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۶/۵۱۰۔