کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 147
[تم میں دو باعثِ امن چیزیں تھیں۔ ایک روانہ ہو گئی اور دوسری باقی رہی۔ (ترجمہ: اور جب تک آپ ان کے درمیان رہیں گے، اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں دیں گے اور جب تک وہ مغفرت طلب کرتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں دیں گے]۔ iii: امام طبری اور امام حاکم نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا: ’’إِنَّہٗ کَانَ قَبْلُ أَمَانَانِ، قَوْلُہ: {وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ} ’’أَمَّا النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَقَدْ مَضٰی، وَ أَمَّا الْاِسْتِغْفَارُ فَھُوْ دَائِرٌ فِیْکُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔‘‘[1] [’’بلاشبہ پہلے سے دو باعثِ امن چیزیں تھیں: ارشاد باری تعالیٰ (ترجمہ: اور جب تک آپ ان کے درمیان رہیں گے، اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں دیں گے اور جب تک وہ مغفرت طلب کرتے رہیں، اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں دیں گے)۔ انہوں نے بیان کیا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بلاشبہ تشریف لے گئے، لیکن استغفار روزِ قیامت تک تمہارے درمیان موجود ہے]۔ ب: امام احمد نے حضرت فضالہ بن عُبَید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت
[1] تفسیر الطبري، رقم الأثر ۱۶۰۰۳، ۱۳/۵۱۳؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الدعآء، ۱/۵۴۲۔ الفاظِ روایت تفسیر الطبری کے ہیں۔