کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 146
’’آپ کی بخشش (ہم طلب کرتے ہیں)، آپ کی بخشش (ہم طلب کرتے ہیں)۔‘‘
سو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیتِ شریفہ) نازل فرمائی:
{وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ}[1]
[اور جب تک آپ ان کے درمیان رہیں گے، اللہ تعالیٰ اُنہیں عذاب نہیں دیں گے اور جب تک وہ گناہوں کی معافی طلب کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ اُنہیں عذاب نہیں دیں گے]۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
’’کَانَ فِیْہِمْ أَمَانَانِ: نَبِيُّ اللّٰہِ- صلي اللّٰه عليه وسلم -، وَ الْاِسْتِغْفَارُ‘‘۔
[ان میں دو امان (یعنی باعثِ امن چیزیں) تھیں: اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور استغفار]۔
انہوں نے (مزید) بیان کیا: ’’فَذَہَبَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَبَقِيَ الْاِسْتِغْفَارُ‘‘۔[2]
[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور استغفار باقی رہا]۔
ii: امام حاکم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے بیان کیا:
’’کَانَ فِیْکُمْ أَمَانَانِ: مَضَتْ إِحْدَاھُمَا، وَ بَقِیَتِ الْأُخْرٰی
{وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ}[3]
[1] سورۃ الأنفال / الآیۃ ۳۳۔
[2] تفسیر الطبري، رقم الحدیث ۱۶۰۰۰، ۱۳/۵۱۱-۵۱۲۔
[3] المستدرک علی الصحیحین، کتاب الدعاء، ۱/۵۴۲۔ امام حاکم لکھتے ہیں: یہ حدیث (امام) مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور ان دونوں (امام بخاری اور امام مسلم) کا (اس بات پر) اتفاق ہے، کہ صحابی کی تفسیر مسند حدیث ہے۔ (یعنی کسی صحابی کی بیان کردہ تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ حدیث کی مانند ہے)۔ حافظ ذہبی نے ان (امام حاکم) کے ساتھ موافقت کی ہے۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۱/۵۴۲؛ التلخیص ۱/۵۴۲)۔