کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 132
امت کو محفوظ فرما دیجیے۔ إِنَّکَ سَمِیْعٌ مُّجِیْبٌ۔ ۲: شیخ البانی پہلی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: ’’قُلْتُ: أَلَیْسَ ہٰذَا مِنْ أَعْلَامِ نُبُوَّتِہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم اَلدَّالَۃِ عَلٰی صِدْقِہٖ، وَ أَنَّہٗ وَحْيٌ مِنْ رَّبِّہٖ؟ بَلٰی، وَ رَبِّيْ‘‘۔[1] [’’میں کہتا ہوں: ’’کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اس (کلام) کے اُن کے رب تعالیٰ کی جانب سے وحی ہونے پر دلالت کرنے والی اُن کی نبوت کی نشانیوں میں سے نہیں؟ کیوں نہیں، میرے رب تعالیٰ کی قسم!‘‘] - xviii - فیصلوں میں ظلم امام بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) انہوں نے فرمایا: ’’وَ مَا جَارَ قَوْمٌ فِيْ حُکْمٍ إِلَّا کَانَ الْبَأْسُ بَیْنَہُمْ …أَظُنُّہٗ قَالَ… وَ الْقَتْلُ۔‘‘[2] [کوئی قوم فیصلے میں ظلم نہیں کرتی، مگر اللہ تعالیٰ ان کے درمیان لڑائی بپا کر دیتے ہیں -میرا گمان ہے، کہ انہوں نے (یہ بھی) فرمایا- اور قتل و غارت]۔ شیخ البانی نے تحریر کیا ہے: اگرچہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے، لیکن یہ [مرفوع
[1] صحیح الترغیب و الترہیب، ہامش ۲، ۱/۴۶۸۔ [2] السنن الکبرٰی، کتاب صلاۃ الاستسقآء، باب الخروج من المظالم…، جزء من رقم الروایۃ ۶۳۹۸، ۳/۴۸۳۔ شیخ البانی نے اس کی [سند کو صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، المجلد الأول / الجزء الثاني / ص ۱۰)۔ حدیث نمبر ۱۰۷ کے ضمن میں۔