کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 123
[زنا کے عام ہونے پر نیک اور بُرے [سب لوگوں) کا ہلاک ہونا]۔ تنبیہ: یہ عام عذاب تب نازل ہوتا ہے، جب تمام لوگ بُرے لوگوں کو بُرائی سے نہ روکیں یا اُن کا روکنا مؤثر نہ رہے اور بُرائی پھیل جائے۔ ایسی حالت میں عام عذاب کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ پھر روزِ قیامت ہر ایک اپنی نیّت پر اٹھایا جائے گا۔[1] iii: امام ابن ماجہ اور امام حاکم نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، (کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَۃُ فِيْ قَوْمٍ قَطُّ، حَتّٰی یُعْلِنُوْا بِہَا إِلَّا فَشَا فِیْہِمُ الطَّاعُوْنُ وَ الْأَوْجَاعُ الَّتِيْ لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِيْ أَسْلَافِہِمُ الَّذِیْنَ مَضَوْا… الحدیث۔[2] اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: راقم السطور کی کتاب [زنا کی سنگینی اور اس کے بُرے اثرات] ص…۔ [کسی قوم میں کبھی بھی زنا عام نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ اسے علانیہ کرنا شروع کر دیں، مگر اُن میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں، جو کہ اُن کے پہلے لوگوں میں نہیں تھیں … الحدیث]۔ v : حضراتِ ائمہ احمد، ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نقل کی ہے، (کہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] ہامش المفہم ۷/۲۰۸۔ [2] سنن ابن ماجہ، أبواب الفتن، باب العقوبات، جزء من رقم الحدیث ۴۰۶۸، ۲/۳۸۵؛ و المستدرک علی الصحیحین، کتاب الفتن و الملاحکم، ۴/۵۴۰۔ الفاظِ حدیث سنن ابن ماجہ کے ہیں۔ امام حاکم نے اس کی [سند کو صحیح]، حافظ ذہبی اور شیخ ارناؤوط نے اسے [صحیح] اور شیخ البانی نے [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المستدرک علی الصحیحین ۴/۵۴۱؛ و التلخیص ۴/۵۴۱؛ و ہامش الإحسان ۱۰/۲۵۹؛ و صحیح سنن ابن ماجہ ۲/۳۷۰)۔