کتاب: لا تیأسوا من روح اللّہ - صفحہ 100
عرض کیا گیا: ’’یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! فَإِنَّہٗ قَدِ احْتُکِرَ۔‘‘ [’’اے امیر المومنین! بلاشبہ اُس کی ذخیرہ اندوزی کی گئی ہے] (یعنی لوگوں کی ضرورت کے باوجود فروخت نہیں کیا جا رہا)‘‘۔ اُنہوں نے دریافت فرمایا: ’’وَ مَنِ احْتَکَرَہٗ؟‘‘ [’’اس کی ذخیرہ اندوزی کرنے والا کون ہے؟‘‘] یعنی اپنے دورِ خلافت میں۔ انہوں نے عرض کیا: ’’فَرُّوْخٌ مَوْلٰی عُثْمَانَ رضی اللّٰه عنہ وَ فُلَانٌ مَوْلٰی عُمَرَ رضی اللّٰه عنہ ۔‘‘ [’’عثمان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام فرّوخ اور عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ فلاں غلام‘‘]۔ انہوں نے ان دونوں کو پیغام بھیج کر، بُلا لیا اور اُن سے پوچھا: ’’مَا حَمَلَکُمَا عَلَی احْتِکَارِ طَعَامِ الْمُسْلِمِیْنَ؟‘‘ [’’تم دونوں کو کس چیز نے مسلمانوں کے غلّے کی ذخیرہ اندوزی کرنے پر آمادہ کیا؟‘‘] اُن دونوں نے عرض کیا: ’’یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! نَشْتَرِيْ بِأَمْوَالِنَا، وَ نَبِیْعُ۔‘‘ [’’اے امیر المؤمنین! ہم اپنے (ہی) مالوں سے خریدتے اور بیچتے ہیں‘‘] (یعنی ہم اس غلّہ کی فروخت میں کسی کے پابند نہیں، کیونکہ ہم نے اسے اپنے مال سے خرید کیا ہے)۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: