کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 9
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج تاثریا می رود دیوار کج اس کے بعد مفتی صاحب لکھتے ہیں : ’’چنانچہ فقہاء حضرات نماز میں عورتوں کی ہیئت کے بارے میں جو مخصوص صورتیں بیان کرتے ہیں ۔ وہ سب احادیث سے ثابت ہیں ۔‘‘ لیکن ہم عرض کریں گے کہ مفتی صاحب کا یہ دعویٰ یکسر بے بنیاد ہے کیونکہ وہ ایک بھی صحیح حدیث اس کی بابت پیش نہیں کر سکے۔ جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا۔ شریعت سازی؟: پھر لکھتے ہیں : ’’اس سے قبل کہ ہم وہ حدیثیں ذکر کریں یہ بات سمجھ لی جائے کہ عورتوں کے بارے میں شریعت کا منشاء یہ ہے کہ وہ حتی الامکان ستر اور پردے سے رہیں خواہ گھر میں رہیں یا کمرے میں ، تنہا ہوں یا دوسروں کے سامنے حتی کہ نماز جو اہم ترین عبادت ہے اس میں بھی اس کا لحاظ کیا گیا ہے۔ اس طرح نماز کی بعض صورتوں میں جو مخصوص ہئیتیں بیان کی گئی ہیں ۔ اس کی علت بھی علماء نے سَتر اور پردہ ہی بتائی ہے۔‘‘ بلاشبہ عورتوں کے پردے اور ستر کی بابت شریعت کا جو منشاء مفتی صاحب نے بتلایا ہے‘ اس سے مجال انکار نہیں ۔ لیکن اس سے مقصود اگر نماز کے خود ساختہ طریقے کا جواز مہیا کرنا ہے تو یہ محل نظر ہے۔ شریعت نے جو طریقۂ نماز بتلایا ہے۔ (جس میں مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے) اس طریقے سے خواتین بے پردہ اور بے ستر نہیں ہوتیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو شریعت از خود عورتوں کو مردوں سے مختلف طریقۂ نماز کا حکم دے دیتی۔ جیسا کہ بعض احکام عورتوں کے لیے الگ ہیں ۔ ان کے علاوہ اگر کوئی مختلف طریقۂ نماز عورتوں کے لیے یہ کہہ کر ایجاد کریں گے کہ اس میں پردہ اور ستر کا زیادہ اہتمام