کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 8
۲۔ یہ کہنا کہ ’’عام لوگوں کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے مسلک کے فقہاء اور امام کے بیان کئے ہوئے مسائل پر عمل کریں ۔‘‘ اس کی بابت مفتی صاحب سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ حکم کس نے دیا ہے؟ قرآن حکیم نے تو بار بار اللہ اور رسول کی اطاعت ہی کا حکم دیا ہے۔ اطاعتِ فقہاء و ائمہ کا حکم تو کہیں بھی نہیں دیا ہے۔ مسلمان عوام اگر پابند ہیں تو صرف قرآن و حدیث کے ہیں ، نہ کہ اقوال و آرائے رجال کے۔ عوام علماء کی طرف رجوع بھی اسی نقطۂ نظر سے کرتے ہیں کہ انہیں قرآن و حدیث سے مسئلہ بتائیں ۔ ان کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہوتا کہ مفتی کسی فقیہ یا امام کے قول کا حوالہ دے کر مسئلہ ثابت کرے۔ ایسے مسلمان عوام کو قرآن و حدیث سے بالکل غافل اور بے خبر رکھنا بلکہ قرآن و سنت کے خلاف مسائل پر عمل کرنے کا ان کو حکم دینا، کیا دیانت و انصاف پر مبنی ہے؟ ۳۔ تیسری بات مفتی صاحب نے یہ بیان فرمائی ہے کہ فقہاء حضرات جو کچھ کہتے ہیں ان کی اصل قرآن یا حدیث سے ہی ہوتی ہے اور اصل کے بغیر کچھ نہیں کہتے۔ سوال یہ ہے کہ اس مقام پر اس ’’صراحت ‘‘ کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ اگر ان کا یہ دعویٰ ہے کہ فقہاء کی کوئی بات قرآن و حدیث کے خلاف نہیں ہے تو اس امر کی وضاحت کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اصل دلائل پیش کرنے سے متعلق فقہاء کی بابت اس امر کی صراحت ہی اس بات کی نشاندہی کر دیتی ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ محترمہ سائلہ نے جو سوال مفتی صاحب سے کیا ہے اس کا کوئی جواب مفتی صاحب کے پاس نہیں ۔ کسی بھی حدیث ِصحیح میں عورتوں کو مردوں سے مختلف رکوع ، سجود ، وضع یدین و رفع یدین کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اسی لیے محترم مفتی صاحب مذکورہ تمہیدی ارشادات پر مجبور بھی ہوئے۔ بمصداق ؎