کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 7
سے چپک کر سجدہ کریں ۔ میں نے یہی مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حدیث بخاری اور مشکوٰۃ شریف میں باب الصلوٰۃ کا خاص طور پر مطالعہ کیا۔ مجھے تو ان میں کوئی حدیث اس بارے میں نہیں ملی۔ سنا ہے کہ ’’درمنثور‘‘ میں ایک حدیث اس بارے میں وارد ہے۔ آج کل یہاں عورتوں میں یہ بحث چل رہی ہے۔ اگر واقعی مرد صاحبان اور خواتین کی نماز کی ہیئت میں اتنا بڑا فرق ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے دو ہزار سے زائد حدیثیں بیان فرمائی ہیں ۔ (جن میں خواتین کے متعلق حدیثیں خاص ہیں ) تو آنجنابہ اس بارے میں ضرور واضح طور پر حدیثیں بیان فرماتیں ، ممکن ہے آپ نے بیان فرمائی ہوں جو میری نظر سے نہ گزری ہوں ۔‘‘ (بیگم عبدالغنی ، کراچی) ہماری گزارشات: ۱۔ محترمہ کے جواب میں مفتی صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ ایسی احادیث نقل کر دیتے جن میں عورتوں کو نماز کی بابت مردوں سے مختلف حکم دیا گیا ہے تاکہ بات بالکل واضح ہو جاتی لیکن مفتی صاحب موصوف نے ’’دلائل‘‘ ذکر کرنے سے پہلے تو یہ ’’وعظ‘‘ فرمایا کہ عوام قرآن و حدیث کے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اس لیے ان کو چاہیے کہ ان کے علماء جو کچھ بتلائیں آنکھیں بند کرکے ان پر عمل کرتے رہیں ۔ حالانکہ عوام کی بابت مطلقاً یہ فیصلہ بالکل غلط ہے۔ بلاشبہ قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے مطلوبہ کسی قابلیت و علم کی ضرورت ہے۔ لیکن عوام کو یہ نشاندہی تو کرائی جا سکتی ہے کہ فلاں مسئلے کی بابت قرآن کی فلاں آیت یا فلاں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔عوام اتنے غَبِی اور کَودن نہیں ہیں کہ وہ حدیث کا ترجمہ بھی پڑھ کر اس کا مطلب نہ سمجھ سکیں یا علماء کے سمجھانے سے بھی ان کے پلے کچھ نہ پڑے۔