کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 64
میں بیان کیے ہیں ۔ ہمارا مطالبہ ان سے اور تمام علمائے احناف سے یہ ہے کہ یہ آٹھ فرق احادیث سے ثابت کر دیں ۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے (اور ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ قیامت تک نہیں کر سکتے) تو ہماری ان سے یہی التجا ہے کہ وہ عورتوں کو سنت کے مطابق نماز پڑھنے سے محروم نہ کریں اور مذکورہ آٹھ صورتیں ان کے لیے بیان کرنا اور ان کو ان کے لیے ضروری قرار دینا بند کر دیں ۔ جب یہ صورتیں احادیث سے ثابت ہی نہیں تو علمائے احناف کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ان کو عورتوں کے لیے ضروری قرار دیں ؟ هَاتُوا۟ بُرۡهَـٰنَكُمۡ إِن كُنتُمۡ صَـٰدِقِینَ۔ ایک دلچسپ لطیفہ ایک اور لطیفہ یا نمونۂ عبرت یہ ہے کہ عورتوں کے لیے علمائے احناف جو فرق تجویز کرتے ہیں ‘ اس میں وہ سب متفق نہیں ۔ چنانچہ گزشتہ مباحث میں یہ بات گزر چکی ہے کہ ’’الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید‘‘ کے مؤلف نے ۵ فرق بیان کیے ہیں ۔ اور ’’الفقہ الحنفی وادلّتہ‘‘ کے مؤلف اور ’’ارکان الاسلام‘ علی مذھب الامام ابو حنیفۃ النعمان‘‘ کے مؤلف دونوں نے تین تین فرق بیان کیے ہیں ۔ اور ’’خواتین کا طریقۂ نماز‘‘ کے مؤلف نے آٹھ فرق بیان کیے ہیں ۔ اگر یہ فرق حدیث میں بیان کیے گئے ہیں ‘ تو تعداد میں یہ اختلاف کیوں ہے؟ یہ اختلاف ہی اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہے کہ عورتوں کے لیے نماز کا الگ طریقہ حدیث نبوی سے ثابت نہیں ہے‘ بلکہ فقہائے احناف کا گھڑا ہوا ہے اور اس کا مبنیٰ قیاس ورائے ہے۔ حالانکہ عبادات میں اصل توقیف (اللہ رسول کا حکم) ہے‘ قیاس ورائے کی اس میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ۔