کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 62
کی تاکید سے اس حکم کی اہمیت واضح ہوتی ہے یا وہ حکم غیر اہم ہو جاتا ہے؟ حدیث رسول کو کنڈم کرنے کے لیے اس استدلال میں کوئی معقولیت ہے؟ بنیادی اور مسلمہ اصول کا اعتراف اور ہمارا مطالبہ : آگے فرماتے ہیں : ’’بہرحال اگر اس جملے کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کی عمومیت میں مرد و عورت سمیت پوری امت شریک ہے اور پوری امت پر لازم ہے کہ جو طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ہے وہی طریقہ امت کا ہو۔ لیکن یہ واضح ہو کہ اس عمومیت پر عمل اس وقت تک ہی ضروری ہے جب تک کوئی شرعی دلیل اس کے معارض نہ ہو۔ اور اگر کوئی دلیل خصوص کی بعض عمل یا افراد میں اس حکم کے معارض ہو تو اس دلیل خصوص کی وجہ سے وہ بعض افراد یا وہ عمل اس امر کی تعمیل سے مستثنیٰ ہوں گے۔ چنانچہ ضعفاء اور مریض ان احادیث سے جن میں ان کے لیے تخفیف کی گئی ہے اور عورتیں ان تمام احادیث سے جس میں ان کو سترپوشی اور اختفاء کا حکم دیا گیا ہے اس حکم سے مستثنیٰ ہوں گے۔ لہٰذا مستثنیات کی موجودگی میں اس جملہ سے عورت اور مرد کی نماز میں مجموعی کیفیت اور طریقہ پر مطابقت کا استدلال درست نہیں۔‘‘ (صفحہ : ۵۰‘۵۱) جواب الحمد للّٰہ ‘ اس اقتباس میں مولانا موصوف نے وہ اصول تسلیم کر لیا ہے جو مسلمہ ہے‘ جسے ہم پچھلے مباحث میں بیان کرتے آ رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان [صَلُّوْاکَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ] عام ہے جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں ‘ اس کے مطابق دونوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نماز پڑھنی ضروری ہے۔ البتہ اس سے وہ چیزیں مستثنیٰ ہوں گی جن کا استثناء احادیث سے ثابت ہو گا۔ متفق گردید رائے بو علی بارائے من