کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 61
جواب یہ بات تو صحیح ہے کہ ایک وفد آپ کے پاس آیا جس میں تقریباً سب جوان تھے۔ لیکن انہوں نے ۲۰ دن جو آپ کے پاس قیام کیا‘ تو اس کا مقصد دین کی تعلیم و تربیت حاصل کرنا تھا یا کچھ اور؟ ظاہر بات ہے وہ آپ کے پاس دین سیکھنے ہی کے لیے آئے تھے اور واپسی پر آپ نے دیگر نصیحتوں کے ساتھ یہ نصیحت بھی فرمائی کہ ’’تم نماز اس طرح پڑھنا‘ جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری‘ الاذان‘ حدیث : ۲۳۱) اس سیاق و سباق میں کیا آپ کا یہ فرمان غیر اہم ہو گیا کہ اس سے استدلال صحیح نہیں ؟ اس سیاق و سباق میں ایسی کون سی چیز ہے جس نے آپ کے اس فرمان کو (نعوذ باللہ) کنڈم کر دیا؟ بلکہ یہ سیاق و سباق تو اس فرمان کی اہمیت کو مزید واضح کرتا ہے کہ جو لوگ دور دراز سے آپ کے پاس دین سیکھنے کے لیے آئے تھے‘ آپ نے ان کو نماز کی بابت خاص صور پر سنت کے مطابق پڑھنے کی تاکید فرمائی۔ اور تعلیم و تربیت کا یہ موقع ایسا تھا کہ اگر عورتوں کے لیے نماز کا طریقہ الگ ہوتا تو وہ آپ ان کو اس موقعے پر ضرور بتلاتے۔ اس لیے کہ جب آپ نے دیکھا کہ گھر سے دوری کی وجہ سے یہ نوجوان اداس ہو گئے ہیں ‘ تو آپ نے فرمایا ’’اپنے گھر والوں کے پاس واپس جاؤ اور انہی کے پاس قیام کرو اور ان کو (دین کی باتیں ) سکھلاؤ اور (ان کا) ان کو حکم دو۔‘‘ اس موقعے پر نماز کی بابت ایک عام حکم دینا اور اس میں کسی کو الگ نہ کرنا‘ اس بات کی قوی دلیل ہے کہ نماز کے اس حکم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مرد اور عورت دونوں ہی شامل تھے‘ نہ کہ صرف مرد۔ پھر یہ کہنا کہ یہ صرف ایک نصیحت تھی‘ بڑی عجیب بات ہے۔ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحتیں قابل عمل یا قابل استدلال نہیں ؟ کیا ان سے احکام و مسائل کا استنباط صحیح نہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کا مقصد ان کو عمل کی تاکید تھا یا کچھ اور؟ ظاہر بات ہے عمل کی تاکید تھا۔ عمل