کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 6
معقول وجہ اور بنیاد نہیں ہے۔ جب تک صحیح احادیث سے ثابت نہ کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں جو فتویٰ مفتی صاحب مذکور کا شائع ہوا ہے، ذیل میں اس کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے جس سے واضح ہو جائے گا کہ برادرانِ احناف کے پاس اپنے مسلک کے اثبات میں کوئی مضبوط دلیل (حدیث صحیح ) نہیں ہے۔ (ص - ی) تمہید ہی میں ’’دلائل‘‘ کی کمزوری کا اعتراف : سب سے پہلے مفتی صاحب نے ’’دلائل‘‘ ذکر کرنے سے پہلے بطور تمہید یہ ارشاد فرمایا کہ ’’فقہاء حضرات جو بھی مسئلہ بیان کرتے ہیں اس کی اصل قرآنِ کریم اور حدیث سے ہوتی ہے۔ البتہ یہ معلوم کرنا کہ قرآن و حدیث میں اس کی اصل کہاں ہے؟ یہ ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے مجتہدانہ صلاحیت کی ضرورت ہے۔ اس لیے عام لوگوں کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ اپنے مسلک کے فقہاء اور امام کے بیان کئے ہوئے مسائل پر عمل کریں ۔ اسی میں ان کے لیے عافیت ہے کیونکہ عوام خود قرآن و حدیث کو صحیح طریقے سے سمجھ کر مسائل معلوم نہیں کر سکتے۔ البتہ مجتہدین اور فقہاء حضرات اس کی اصل کو تلاش کرتے ہیں اور اصل کے بغیر کچھ نہیں ۔‘‘ (روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی ۳۰ اکتوبر ۱۹۸۱ء) قبل اس کے کہ مفتی صاحب کی ان تمہیدی گزارشات پر کچھ عرض کیا جائے اس عورت کا سوال بھی پڑھ لیا جائے جس کے جواب میں مفتی صاحب نے یہ کچھ ارشاد فرمایا ہے: سوال یہ تھا۔ ’’مولانا اشرف علی تھانوی اور بعض دیگر علمائے دین نے یہ فرمایا ہے کہ مرد نیت باندھتے وقت کان کی لو تک انگوٹھے لے جائے اور عورت صرف کندھے تک‘ مردزیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر۔ رکوع میں مرد انگلیاں یوں رکھیں اور خواتین اس طرح‘ مرد کمر کو اُٹھا کر سجدہ کریں اور عورتیں بالکل دَب کر اور زمین