کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 59
کرے کہ عورت روزے میں فلاں فلاں کام نہ کرے یا فلاں کام کرے‘ جب کہ مردوں کے لیے ان کو وہ ضروری قرار نہ دے۔ جب اس کو ایسا کرنے سے روکا جائے‘ تو وہ کہے کہ میرے سامنے قرآن کی آیت پیش کرو‘ یا کوئی حدیث یا کسی خلیفۂ راشد کا فتوی۔ فرمائیے یہ ہٹ دھرمی ہے یا علمی استدلال؟ آخر آپ عورتوں کے لیے روزے کے نئے احکام تجویز کرنے والے کو کیا جواب دیں گے؟ کیا اس کا جواب اس کے سوا کوئی اور بھی ہے‘ یا ہو سکتا ہے کہ قرآن کا حکم عام ہے‘ اس میں عورتوں کے لیے الگ طریقہ تجویز نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے جس طرح مرد روزہ رکھے گا‘ عورت بھی اسی طرح روزہ رکھے گی‘ روزے کے جو آداب و احکام مرد کے لیے ضروری ہیں ‘ عورتوں کے لیے بھی وہی ہوں گے۔ کیا یہ دلیل نہیں ہے؟ اس دلیل کے علاوہ کیا آپ قرآن کی کوئی آیت یا حدیث یا خلیفۂ راشد کا فتویٰ پیش کر سکتے ہیں ؟ اگر کر سکتے ہیں تو کر کے دکھائیں ‘ ہم بھی آپ کو دکھا دیں گے۔ پہلے اس اصول کو۔ اگر یہ کوئی اصول ہے؟ آپ استعمال کر کے دکھلائیں ۔ ماھوجوابکم فھو جوابنا۔ ہمارے موقف کی اصل بنیاد حدیث رسول ہے۔ پھر یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اہلحدیث کے پاس ان کے مؤقف پر کوئی حدیث نہیں ہے؟ جب اس مسئلے کی بنیاد ہی حدیث رسول پر ہے۔ تو پھر قرآنی آیت کا مطالبہ یا خلیفہ ٔراشد کا فتوی مانگنا ہٹ دھرمی کے سوا کیا ہے؟ ہاں کوئی مطالبہ ہو سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ اس حدیث کی صحت ثابت کرو۔ اور وہ الحمد للہ ثابت ہے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس حدیث سے مرد اور عورت دونوں کی نماز کا ایک ہی طریقہ کس طرح ثابت ہوتا ہے؟ تو اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے۔ وہ اس طرح کہ اللہ کے رسول نے عورتوں کے لیے نماز کا الگ طریقہ -سوائے چند باتوں کے- تجویز نہیں کیا۔ اس لیے اس حکم میں کہ ’’تم نماز اس طرح پڑھو‘