کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 58
ہے۔ سوائے ان مخصوص باتوں کے جن کی بابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے لیے الگ ہدایات دی ہیں ۔ اور احناف نے ان کے لیے جو الگ طریقۂ نماز مقرر کر رکھا ہے‘ وہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے‘ اس لیے عورت کے لیے وہ طریقہ اختیار کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اس طریقے کو احادیث سے ثابت نہیں کر دیا جاتا ہے۔ اور ہمارا دعویٰ ہے کہ علمائے احناف اسے قیامت تک ثابت نہیں کر سکتے۔ ’’میں نہ مانوں ‘‘ کا علاج تو کسی کے پاس نہیں ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے موقف کے حق میں ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہے۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات کے مباحث سے واضح ہے۔ ایک بے بنیاد دعوے یا اصول کا بار بار حوالہ : مولانا سکھروی صاحب لکھتے ہیں : ’’جہاں تک اہلحدیث حضرات کے دعوے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں نہ تو ان کے پاس کوئی قرآنی آیت ہے اور نہ کوئی حدیث اور نہ ہی کسی خلیفۂ راشد کا فتوی۔ البتہ اگر وہ حضرت ام درداء کا اثر استدلال میں پیش کریں جو یہ ہے کہ ’’حضرت ام درداء نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں ‘‘ (المصنف ابن ابی شیبہ‘ ج :۱‘ ص : ۲۰) تو اس اثر کے بارے میں عرض یہ ہے کہ اس اثر سے استدلال کرنا کئی وجہ سے درست نہیں ۔‘‘ (صفحہ : ۴۷) جواب مولانا موصوف کا یہ اصول‘ جو یہاں پھر پیش کیا گیا ہے‘ یکسر غلط ہے جس کا بودا پن ہم اس سے قبل دو مرتبہ واضح کر آئے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ قرآنی آیت‘ یا حدیث پیش کرنا تو علمائے احناف کی ذمے داری ہے کیونکہ انہوں نے ایک خود ساختہ طریقہ اپنایا ہوا ہے۔ اہلحدیث کے پاس تو ایک نہایت واضح حدیث موجود ہے۔ جیسے رمضان کے روزے رکھنے کا حکم عام ہے‘ اس میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں ۔ اب جو شخص یہ دعویٰ