کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 57
پانچویں نمبر پر اکابر اہلحدیث کی بابت دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن اقتباس صرف مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کا دیا ہے۔ کیا صرف ایک بزرگ کو اہل حدیث کے اکابر کہا جا سکتا ہے؟ مولانا عبدالجبار غزنوی یقینا اکابر اہلحدیث میں سے ہیں لیکن وہ ’’اکابر‘‘ نہیں ہیں ‘ ایک اکبر ہیں ۔ وہ ہمارے ایک بڑے اور عظیم بزرگ ہیں ۔ لیکن اہلحدیث کو تو آپ خود غیر مقلد کہتے ہیں تو پھر ہمارے سامنے ہمارے کسی بزرگ کا قول یا فتویٰ نقل کرنے کا کیا فائدہ؟ عدم تقلید کی برکت سے الحمد للہ ہم اکابر پرستی سے محفوظ ہیں ۔ اس لیے مولانا غزنوی کا یہ فتویٰ بھی ہمارے نزدیک اسی طرح غلط ہے جس طرح آپ کی ساری کتاب غلط‘ بلکہ اغلوطات کا مجموعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے اہلحدیث میں کسی نے مولانا غزنوی کی تائید نہیں کی۔ اہلحدیث کا جو مسلک ہے‘ وہ اسی فتاوی علمائے حدیث میں دوسری جگہ موجود ہے جہاں سے مولانا غزنوی کا فتویٰ نقل کیا گیا ہے۔ لیجیے ملاحظہ فرمائیے! سوال میں احناف ہی کے پیش کردہ دلائل دیے گئے ہیں ۔ جواب عورت مرد دونوں کا نماز پڑھنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: [صَلُّوْاکَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ] (رواہ البخاری) اور بخاری باب سنۃ الجلوس فی التشھد میں ہے: [کانت ام الدرداء تجلس فی صلوتھا جلسۃ الرجل و کانت فقیھۃ] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح بیٹھیں ۔ اور جو حدیثیں بیہقی اور ابوداود کی مذکور فی السوال ہیں ‘ وہ ضعیف ہیں قابل حجت نہیں ۔‘‘ (فتاویٰ علمائے حدیث‘ ج : ۲‘ ص : ۱۷۵) یہ ہے اہلحدیث کا مسلک‘ جو حدیث نبوی [صَلُّوْاکَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ] (رواہ البخاری) پر مبنی ہے۔ اس حکم [صَلُّوا] میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں ۔ دونوں کے لیے طریقۂ نبوی کے مطابق نماز پڑھنا ضروری ہے۔ اور وہ طریقہ دونوں کے لیے ایک ہی