کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 56
دعوے کی نفی کر دیتے ہیں ۔ علاوہ ازیں جب خواتین کا یہ طریقۂ نماز ہی کسی حدیث سے ثابت نہیں ‘ تو یہ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ عہد رسالت و عہد صحابہ و تابعین میں عورتیں اس طرح نماز پڑھتی تھیں ۔ سبحانک ھذا بھتان عظیم۔ چوتھا دعویٰ ہے کہ کسی صحابی یا تابعی یا دیگر فقہائے امت کا کوئی ایسا فتویٰ نظر نہیں آیا جس میں عورتوں کی نماز کو مردوں کے مطابق قرار دیا ہو۔ اس کا جواب ہم پہلے دے آئے ہیں کہ جو مسئلہ واضح ہو‘ اس میں کوئی ابہام ہو نہ اختلاف۔ اس کی بابت کوئی فتویٰ دیتا ہے نہ کوئی پوچھتا ہی ہے۔ اس کی مثال ہم نے عرض کی تھی کہ رمضان المبارک کے روزے مرد اور عورت دونوں پر فرض ہیں اور دونوں کے لیے اس کے آداب و فرائض بھی یکساں ہیں ۔ اب ایک شخص عورتوں کے لیے کچھ نئے آداب گھڑ لیتا ہے‘ اس سے اس کی دلیل مانگی جائے‘ تو کہے کہ آج تک کسی صحابی یا تابعی یا فقہائے امت سے کسی کا فتویٰ نظر سے نہیں گزرا جس میں مرد اور عورت کے لیے روزہ رکھنے کا ایک ہی طریقہ قرار دیا گیا ہو۔ بتلائیے! یہ کوئی معقول دلیل ہے؟ جو چیز مسلمہ ہو اور اس کی بابت قرآن یا حدیث کی واضح تصریحات موجود ہوں ‘ تو وہاں کسی کے فتویٰ کی ضرورت ہوتی ہے نہ کوئی دیتا ہی ہے۔ جو مسلمہ مسئلے کے خلاف کوئی چیز پیش کرے‘ تو یہ اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کی دلیل پیش کرے اور اسے ثابت کرے۔ اسی طرح عورتوں کا مردوں کی طرح نماز پڑھنے کا مسئلہ بالکل واضح ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان [صَلُّوْاکَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ] (صحیح بخاری‘ حدیث : ۶۳۱) پر مبنی ہے۔ اب جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ عورتوں کا طریقۂ نماز مردوں سے مختلف ہے‘ اس کا یہ دعویٰ اس حدیث کے خلاف ہے۔ اس لیے اپنے دعوے کے اثبات کے لیے دلیل پیش کرنا اس کی ذمے داری ہے۔