کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 55
مطابق قرار دیا ہو۔ نیز خود اکابر اہلحدیث حضرات اس مسئلے میں مذکورہ بالا احادیث کے مطابق فتویٰ دیتے رہے ہیں ۔‘‘ (اس کے بعد مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہ اللہ کا فتویٰ نقل کیا گیا ہے جو حنفی فقہ کے مطابق ہے۔) (خواتین کا طریقۂ نماز‘ ص : ۴۵‘۴۶) جواب اس میں موصوف نے اپنے چند دعووں کو دہرایا ہے جن کی حقیقت اللہ کی توفیق سے ہم واضح کر آئے ہیں ۔ تاہم پھر مختصر وضاحت کی جاتی ہے تاکہ اتمامِ حجت ہو جائے۔ ﴿ لِّیَهۡلِكَ مَنۡ هَلَكَ عَنۢ بَیِّنَةِ وَیَحۡیَىٰ مَنۡ حَیَّ عَنۢ بَیِّنَةِ﴾ (الانفال : ۴۲) ’’۱- پہلا دعویٰ کہ احادیث و آثار اور چاروں مذاہب سے عورتوں کی نماز کا جو مسنون طریقہ ثابت ہوا‘ وہ مردوں کے طریقۂ نماز سے جدا ہے۔ لیکن اس دعوے کی پوری حقیقت ہم الحمد للہ واضح کر آئے ہیں ۔ اس دعوے کی پشت پر ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہے۔ اس لیے نماز کا وہی طریقہ مسنون ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور وہ مرد ہو یا عورت‘ دونوں کے لیے ایک ہی طریقہ ہے ‘ سوائے بعض ہدایات کے۔ جب تک علمائے احناف صحیح احادیث سے وہ فرق ثابت نہیں کر دیتے‘ انہیں یہ دعویٰ کرنے کا قطعاً کوئی حق نہیں ۔ دوسرا دعویٰ کہ عورتوں کے طریقۂ نماز میں زیادہ سے زیادہ پردہ کرنے اور جسم سمیٹ کر ایک دوسرے کے ملانے کا حکم ہے۔ لیکن یہ حکم کہاں ہے؟ ہمیں تو کسی حدیث میں یہ نہیں ملا۔ هَاتُوا۟ بُرۡهَـٰنَكُمۡ إِن كُنتُمۡ صَـٰدِقِینَ ۔ (اگر سچے ہو‘ تو دلیل پیش کرو!) تیسرا دعویٰ کہ یہ طریقہ حضور کے عہد مبارک سے آج تک متفق اور متواتر ہے۔ یہ محض لاف زنی ہے۔ جب یہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ‘ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک سے آج تک کس طرح اسے متفق علیہ اور متواتر قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس کے خلاف حضرت ام درداء کے دواثر تو ہم نقل کر آئے ہیں ‘ ایک صحیح بخاری میں ہے اور ایک مصنف ابن ابی شیبہ میں ۔ یہ دونوں اثر ہی اتفاق و تواتر کے