کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 54
بات بیان کی گئی ہے کہ ایسی صورت میں عورت درمیان میں کھڑی ہو گی نہ کہ آگے‘ جیسے مردوں کا امام آگے کھڑا ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس میں بھی تو مرد و عورت کے درمیان ایک فرق ہی بیان کیا گیا ہے‘ اس لیے اسے غیر متعلق نہیں کہا جا سکتا لیکن ہم عرض کریں گے کہ یہ فرق بھی اگرچہ بعض علماء کے نزدیک صحیح ہے۔ لیکن جن فروق پر بحث ہو رہی ہے‘ اس کا تو اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ ان فروق میں تو حنابلہ احناف کے مطابق نہیں ہیں ۔ پھر حنابلہ کو بھی اس مسئلے میں اپنا ہمنوا قرار دینا کیوں کر صحیح ہے؟ علاوہ ازیں یہاں ایک اور سوال ہے کہ کیا فقہ حنفی میں عورت کا عورتوں کی امامت کرانا جائز ہے؟ ان کے ہاں تو عورت عورتوں کی امامت ہی نہیں کرا سکتی۔ ان کے نزدیک یہ مکروہ عمل ہے۔ جب عورت کا امامت کرانا ہی مکروہ ہے تو پھر اس میں مرد و عورت کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ اس اعتبار سے بھی مولانا موصوف کا مذکورہ اقتباس نقل کرنا بے محل بھی ہے اور علمی خیانت بھی۔ اور نتیجہ اس کا ضَلُّوْا فَاَضَلُّوْا کا مصداق بننا ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ۔ پانچ دعوے اور ان کی حقیقت : مولانا سکھروی صاحب لکھتے ہیں : ’’مذکورہ بالا احادیث طیبہ‘ آثارِ صحابہ و تابعین اور چاروں مذاہب فقہ حقہ کے حضرات فقہائے کرام کی عبارات سے جو عورتوں کی نماز کا مسنون طریقہ ثابت ہوا‘ وہ مردوں کے طریقۂ نماز سے جدا ہے۔ عورتوں کے طریقۂ نماز میں زیادہ سے زیادہ پردہ اور جسم سمیٹ کر ایک دوسرے کے ملانے کا حکم ہے اور یہ طریقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے آج تک اس امت میں متفق علیہ اور عملاً متواتر ہے۔ آج تک کسی صحابی یا تابعی یا دیگر فقہائے امت کا کوئی ایسا فتویٰ نظر نہیں آیا جس میں عورتوں کی نماز کو مردوں کی نماز کے