کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 53
صف کے درمیان میں کھڑی ہو (یعنی مرد کی طرح آگے نہ کھڑی ہو) ابن قدامہ نے اس کی شرح میں کہا ہے۔ جب یہ بات (کہ عورت عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے) ثابت ہو گئی‘ تو جب وہ ان (عورتوں ) کو نماز پڑھائے تو ان کے درمیان میں کھڑی ہو۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ عورت عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے‘ ان کے درمیان اس کی بابت کوئی اختلاف ہمارے علم میں نہیں کہ ایسی صورت میں عورت صف کے درمیان میں کھڑی ہو گی۔ (’’اس لیے کہ یہی طریقہ حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔‘‘ یہ عبارت موصوف نے نقل نہیں کی ہے‘ لیکن یہ اصل کتاب میں موجود ہے۔ ہم نے یہ اس لیے نقل کی ہے کہ اگلی عبارت کا تسلسل اس کے بغیر قائم نہیں ہوتا) اور اس لیے کہ عورت کے لیے پردہ پوشی مستحب ہے‘ اسی لیے اس کے لیے علیحدہ (آگے کھڑا ہونا) مستحب نہیں ہے (اور اس کا صف کے درمیان میں کھڑا ہونا اس کے لیے اَسْتَر (زیادہ باپردہ) ہے‘ پس اس کے لیے یہی مستحب ہے…) (المغنی مع الشرح الکبیر‘ ج : ۲‘ ص : ۸۲- و طبع جدید‘ ج : ۲‘ ص : ۱۷) بتلائیے! اس عبارت میں کہیں بھی اس فرق کی تفصیل ہے جو زیربحث ہے اور جس کی بابت مولانا سکھروی نے دعویٰ کیا ہے کہ حنبلی مذہب میں بھی ایسا ہی ہے۔ وہ پانچ باتیں یا آٹھ فرق اس میں کہاں ہیں جن کا اس عبارت میں ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس میں تو ایک بالکل مختلف مسئلہ بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے عورت کا عورتوں کی امامت کرانے کا۔ اس کی بابت احادیث میں تو کوئی صراحت نہیں ملتی۔ البتہ حضرت عائشہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہما کا عمل ملتا ہے کہ انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی‘ تو وہ صف کے درمیان میں کھڑی ہوئیں ۔ اسی سے استدلال کرتے ہوئے مذکورہ عربی عبارت میں یہی