کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 51
عمل کی کوئی دلیل بھی ہے یا نہیں ؟ اور ہم پورے اذعان و یقین بلکہ تحدّی سے یہ عرض کرتے ہیں کہ احناف کے علاوہ بھی اگر کوئی اس مسئلے میں احناف کا ہم نوا ہے تو جیسے احناف کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ [ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا] اسی طرح دوسرے اہل فقہ بھی اس مسلک کی صحت کی کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے۔ ھاتوابرھانکم ان کنتم صادقین۔ (اگر سچے ہو‘ تو دلیل پیش کر کے دکھاؤ) شوافع کا اعتراف ِ عجز: یہی وجہ ہے کہ شافعی حضرات بھی احناف کی طرح‘ عورتوں کے لیے الگ طریقۂ نماز تجویز کرتے ہیں لیکن ان کے سمجھ دار لوگ یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں جن روایات کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ سب ضعیف ہیں ۔ ان میں اگر کوئی روایت کچھ کام کی ہے تو وہ صرف ایک مرسل روایت ہے۔ چنانچہ مولانا سکھروی صاحب نے مذہب شافعی کے ضمن میں جس کتاب کا حوالہ دیا ہے‘ وہاں سجدے کی کیفیت میں مرد اور عورت کے لیے فرق کیا گیا ہے۔ لیکن اس مقام کو نکال کر دیکھ لیجیے۔ وہاں امام نووی رحمہ اللہ نے مرد کے لیے تو دلیل کے طور پر حدیث پیش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں اپنے بازو اپنے پہلوؤں سے الگ رکھتے تھے اور اپنے ہاتھوں کے درمیان اتنی کشادگی رکھتے تھے کہ آپ کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔ لیکن عورت چمٹ کر سجدہ کیوں کرے؟ اس کی کوئی دلیل انہوں نے پیش نہیں کی۔ بلکہ ’’المہذب‘‘ (فقہ شافعی کی کتاب) کے متن میں جو وجہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں عورت کے لیے زیادہ پردہ ہے‘ اس کی شرح میں وہ خاموشی سے گزر گئے ہیں ۔ (دیکھیے ’’المجموع شرح المہذب‘ ج : ۳‘ص : ۴۰۵-۴۰۶) اسی طرح اس سے قبل بھی ایک جگہ وہ لکھتے ہیں : [والمعتمد فی استحباب ضم المرأۃ بعضھا الی بعض کونہ استرلھا…