کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 50
ہوگی؟ آخر اس میں بے پردگی کا کون سا پہلو ہے؟ اگر یہ فرق نص پر مبنی ہوتا‘ تو پھر یہ سوال کرنے کا مجاز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ سوال ہم اسی لیے کر رہے ہیں کہ اس کی بنیاد عقل و قیاس ہے۔ اس لیے ہمیں بھی عقل و قیاس کی بنیاد پر سوال کرنے کا حق حاصل ہے تاکہ ہم سمجھ سکیں کہ واقعی اس کی کوئی عقلی و قیاسی بنیاد ہے۔ ورنہ ہمارے نزدیک تو اس کی عقلی و قیاسی بنیاد بھی نہیں ہے۔ شرعی بنیاد تو پہلے ہی نہیں ہے‘ جیسا کہ تفصیل سے وضاحت کی جا چکی ہے۔ اسی طرح دوسری کیفیات کی بابت بھی یہی سوال ہے کہ ان میں پردے کا پہلو کس طرح ہے؟ اور اگر عورت‘ مرد ہی کی طرح وہ کام کرے‘ تو اس میں بے پردگی کیسے اور کس طرح ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ شریعت ِ اسلامیہ نے عورت کے لیے پردے کے احکام دیے ہیں اور بے پردگی کی صورتوں سے روکا ہے۔ اگر ان کیفیات و ہیئات میں واقعی عورت کے لیے پردہ اور بصورت دیگر بے پردگی ہوتی۔ تو کیا شریعت اس کا اہتمام کرنے کا حکم نہ دیتی؟ کیا اللہ تعالیٰ بھول گیا؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسئلے کو اس طرح واضح نہیں کر سکے جیسا کہ بعد میں فقہائے احناف نے واضح کیا؟ چاروں مذاہب کے متفق ہونے کا دعویٰ اور اس کی حقیقت : اس کے بعد مولانا سکھروی صاحب نے چاروں ائمہ فقہ کے مسالک اور ان کی فقہی کتابوں سے چند عربی عبارتیں نقل کر کے یہ تأثر دیا ہے کہ چاروں مذاہب بھی اس معاملے میں متفق ہیں ۔ ہم فی الحال اس پر زیادہ گفتگو نہیں کرتے‘ اس لیے کہ ہمارے نزدیک اصل ماخذ صرف کتاب و سنت ہیں ۔ اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا قائل و فاعل کون ہے یا کون کون ہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے اس قول یا