کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 49
دیکھ لیجیے! اس حنفی عالم نے بھی ان فروق کے لیے کتاب و سنت سے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ حالانکہ اس کتاب کا موضوع بھی فقہ حنفی کے مسائل کے دلائل بیان کرنا ہے۔ تیسری کتاب اور اس کا تعارف : اس کا نام ہے ’’ارکان الاسلام‘ فقہ العبادات علی مذھب الامام ابی حنیفۃ النعمان-‘‘ مؤلف کا نام ہے‘ وھبی سلیمان غاؤجی۔ یہ دو جلدوں میں ہے۔ مطبوعہ دارالبشائر الاسلامیہ‘ بیروت‘ طبع اُولیٰ ۲۰۰۲ء اس میں بھی صرف تین فرق بیان کیے گئے ہیں ۔ ۱- ’’مرد تکبیر تحریمہ کے وقت‘ کانوں کے برابر تک رفع الیدین کرے۔ لیکن عورت کندھوں کے برابر تک رفع الیدین کرے۔ اس لیے کہ اس کی زندگی اور نماز کی بنیاد پردے پر ہے۔‘‘ ۲- ’’مرد اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر‘ ناف کے نیچے رکھے۔ لیکن عورت اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر‘ سینے پر رکھے۔ بغیر تحلیق کے (حلقہ بنائے بغیر) اس لیے کہ اس میں اس کے لیے زیادہ پردہ ہے۔‘‘ ۳- ’’عورت اپنی سرین (چوتڑ) پر بیٹھے۔ اس لیے کہ اس میں اس کیلئے زیادہ پردہ ہے۔‘‘ اس حنفی عالم نے بھی ان فروق کے لیے کوئی دلیل کتاب و سنت سے نہیں دی ہے۔ صرف یہ عقلی دلیل دی ہے کہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔ حنفی علماء سے دو سوال : اس مقام پر ہم حنفی علماء سے دو سوال اَور کرنا چاہتیہیں ۔ ۱- ایک یہ کہ عورت اگر کندھے تک ہاتھ اٹھانے کی بجائے‘ دو انچ اور زیادہ ہاتھ اٹھا کر کانوں کے برابر تک (مردوں کی طرح) ہاتھ اٹھا لے‘ تو اس میں بے پردگی کس طرح