کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 48
ان مسئلوں میں اس طرح عمل کرے‘ کیونکہ ان میں ان کے لیے زیادہ پردہ ہے۔ کیا عقل و قیاس کی بنیاد پر کسی چیز کو فرض و واجب یا سنت و مستحب قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہم حنفی علماء سے پوچھتے ہیں کہ جس چیز کی بابت قرآن و حدیث میں کوئی حکم اور کوئی صراحت نہ ہو‘ کیا اسے عقل و قیاس کی بنیاد پر فرض و واجب یا سنت و مستحب قرار دیا جا سکتا ہے؟ اگر کیا جا سکتا ہے‘ تو اس کی کیا دلیل ان کے پاس ہے؟ اور اگر نہیں کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے آخر کس بنیاد پر یہ فرق تجویز کیا ہے؟ احناف کے پاس صرف سجدے کی کیفیت میں ایک مرسل (اور وہ بھی ضعیف و منقطع) روایت ہے اور وہ بھی نہایت مبہم۔ اس میں وہ ساری کیفیات ہرگز نہیں آتیں جو عورت کے لیے ضروری قرار دی جاتی ہیں ۔ سجدے کی یہ کیفیات بھی گویا خانہ ساز ہیں جن کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ۔ دوسرے حنفی عالم کی کتاب اور اس کا تعارف : اس کا نام ہے۔ ’’الفقہ الحنفی و ادلّتہ‘‘ ’’حنفی فقہ اور اس کے دلائل‘‘ مؤلف کا نام ہے‘ الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی۔ مطبوعہ دارالکلم الطیب‘ دمشق‘ بیروت- طبع اُولیٰ ۲۰۰۰ء یہ تین جلدوں میں ہے۔ اس کتاب میں عورت کے لیے تین فرق بیان کیے گئے ہیں ۔ ۱- مرد اپنے ہاتھ ناف کے نیچے رکھے اور عورت ہتھیلی پر ہتھیلی چھاتی کے نیچے رکھے۔ (ص : ۱۷۳) ۲- عورت سجدہ جھک کر کرے اور اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے‘ اس لیے کہ اس کے لیے اس میں زیادہ پردہ ہے۔ (ص : ۱۷۴) ۳- عورت اپنی بائیں سرین پر بیٹھے اور اپنا بایاں پیر دائیں سرین کے نیچے سے نکال لے۔ اس لیے کہ یہ طریقہ اس کے لیے زیادہ باپردہ (استر) ہے۔ (ص : ۱۷۵)