کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 45
نیچے رکھے اور عورت اپنے ہاتھ اپنی چھاتیوں کے نیچے سینے پر رکھے‘ بغیر ہاتھوں کے پکڑے‘ بلکہ ہتھیلی کے اوپر ہتھیلی رکھے‘ اس لیے کہ اس میں اس کے لیے زیادہ پردہ ہے۔‘‘ اس کی دلیل میں حسب ذیل حدیث پیش کی ہے۔ ’’سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں مرد اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازو پر رکھیں ۔‘‘ (صحیح بخاری‘ حدیث : ۷۴۰) اس حدیث میں مرد کے لیے اس حد تک تو دلیل ہے کہ وہ حالت قیام میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازو پر رکھے۔ لیکن وہ یہ ہاتھ جسم کے کس حصے پر رکھے؟ اس کی کوئی صراحت نہیں ۔ اس کے لیے فاضل مصنف نے مسند احمد اور ابوداود کے حوالے سے زیر ناف والا حضرت علی کا اثر نقل کیا ہے‘ لیکن اس کی بابت خود ہی صراحت کر دی ہے کہ اس کی سند میں کچھ گفتگو ہے۔ [وفی سندہ مقال ] (الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید‘ ص : ۲۱۷‘ ج : ۱) لیکن عورت کے لیے ہاتھ باندھنے کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے‘ اس کی کوئی دلیل سوائے استر (زیادہ باپردہ) ہونے کے‘ کوئی اور بیان نہیں کی۔ تیسرا فرق : ’’مرد رکوع میں مضبوطی سے اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو پکڑ لے اور کمر کو توڑ دے‘ یعنی اسے ہموار رکھے‘ نہ وہ اونچی ہو نہ نیچی۔ ایک روایت میں ہے کہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر مضبوطی سے رکھ لے‘ ایک اور روایت میں ہے کہ اپنی انگلیاں کشادہ کر لے۔ یہ سارے احکام مردوں کے لیے ہیں ۔ لیکن عورت اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو کشادہ کرے‘ نہ اپنے گھٹنے پکڑے‘ بلکہ اپنی انگلیوں کو ملا لے اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے اور اپنے گھٹنوں کو خم دے اور اپنے بازؤں کو اپنے ساتھ ملا کر رکھے۔اس لیے کہ اس میں اس کے لیے زیادہ پردہ ہے۔ (الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید‘ ج : ۱ ص : ۲۲۱)