کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 43
کو تسلیم کر لیا ہے کہ اس مسئلے میں کوئی حدیث نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو یقینا وہ اسے پیش کرتے‘ کیونکہ ان کا تو مقصد تألیف ہی حنفی فقہ کے مسائل کو قرآن و حدیث کے مطابق ثابت کرنا ہے۔ دوسری بات یہ واضح ہوئی کہ عرب کے حنفی علماء پاک و ہند کے حنفی علماء کے مقابلے میں امین اور دیانت دار ہیں ‘ ان عربی علماء کی یہ ضرورت تھی کہ وہ عورتوں کے حنفی طریقۂ نماز کو حدیث سے ثابت کرتے۔ لیکن چونکہ واقعہ یہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں ایسی ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہے‘ اس لیے انہوں نے سرے سے کوئی حدیث ہی پیش نہیں کی۔ ان کے برعکس ہمارے پاک و ہند کے مرصّع و مقطّع‘ اصحابِ جُبّہ و دستار علماء امانت و دیانت علمی سے عاری ہیں اور اِفتاء و حدیث کی مسند پر بیٹھ کر جھوٹی اور بالکل ضعیف (بے سرو پا) روایات کو احادیث باور کرنے پر اپنا زور قلم صرف کر رہے ہیں ۔ فإنا للّٰہ و إنا الیہ راجعون۔ کیا یہ وہی یہودیانہ تلبیس نہیں ہے جس کا ذکر قرآن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ ﴿ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ ﴾ (البقرۃ : ۷۹) ’’ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے۔‘‘ بہرحال اب ان تینوں کتابوں کے نام (مع مکمل تعارف) اور ان کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیں ۔ ان میں سے ایک کتاب ہے‘ جس کا نام ہے۔ الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید صیاغۃ جدیدۃ و میسَّرۃ للاحکام الشرعیۃ علی مذھب الامام أبی حنیفۃ