کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 42
نماز سے واضح طور پر مختلف ہونا ثابت ہوا۔ اب اس بارے میں ائمہ فقہ کے مسلک ملاحظہ فرمائیں ۔‘‘ (ص : ۴۳) لیکن ہم عرض کریں گے کہ احادیث تو کجا‘ موصوف مسئلہ زیر بحث میں ایک حدیث بھی پیش نہیں کر سکے۔ احادیث کے نام سے انہوں نے جو کچھ پیش کیا ہے‘ انہیں احادیث کہنا اور احادیث باور کرانا‘ جہنم کی وعید کا مستحق بننا ہے۔ اس لیے ہم پورے اخلاص اور خیر خواہانہ جذبے سے عرض کریں گے کہ ان کا مسلک کسی حدیث پر قطعاً مبنی نہیں ہے۔ وہ اس مسئلے میں حدیث کا حوالہ دینا چھوڑ دیں اور یہ باور کرانا ترک کر دیں کہ احناف کا یہ مسئلہ احادیث کے مطابق ہے۔ یہی صورت حال آثارِ صحابہ و تابعین کی ہے کہ سند کے اعتبار سے وہ بھی ضعیف اور ناقابل حجت ہیں ۔ عالم عرب کے حنفی علماء کی علمی دیانت یا اعترافِ عجز : گزشتہ چند سالوں میں عالم عرب سے تین کتابیں چھپ کر آئی ہیں ۔ تینوں کتابوں کا موضوع یہ ہے کہ حنفی فقہ کے سارے مسائل قرآن و حدیث کے مطابق ہیں ۔ تینوں مؤلفین نے اس بات کے اثبات پر پورا زور صرف کیا ہے۔ ہم نے ان تینوں کتابوں میں مرد و عورت کی نماز کے فرق کے دلائل بطور خاص کوشش کر کے دیکھے‘ کیونکہ تینوں مؤلفین کا مقصد ہی اس تأثر یا حقیقت کی نفی کرنا ہے کہ فقہ حنفی کا کوئی مسئلہ قرآن یا حدیث کے خلاف ہے۔ لیکن تینوں کتابیں دیکھنے کے بعد ہمیں سخت مایوسی ہوئی۔ کیونکہ تینوں نے مرد و عورت کی نماز کے درمیان فرق تو بیان کیا ہے۔ لیکن سوائے ایک مرسل روایت کے اور کوئی حدیث ان میں سے کسی نے بیان نہیں کی۔ سب نے صرف ایک عقلی دلیل کا سہارا لیا ہے کہ عورت کے لیے اس میں پردہ زیادہ (اَسْتَر) ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ عالم عرب سے تعلق رکھنے والے حنفی علماء نے اس بات