کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 41
[وقال ابو حمید : سجد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ووضع یدیہ غیر مفترش ولا قابضھما] (صحیح بخاری‘ حوالۂ مذکور) ’’ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور اپنے ہاتھ (زمین پر اس طرح رکھے کہ) وہ نہ بچھے ہوئے تھے اور نہ پہلوؤں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔‘‘ امام نووی نے صحیح مسلم میں اس حدیث پر جو باب باندھا ہے‘ جو پہلے حوالے میں درج ہے‘ اس سے سجدے کی مطلوبہ کیفیت بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اس کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔ ’’سجدے میں اعتدال کا بیان‘ نیز سجدے میں دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر رکھنے‘ کہنیوں کو پہلوؤں سے بلند رکھنے اور پیٹ کو دونوں رانوں سے اٹھا کر رکھنے کا بیان۔‘‘ سجدے میں اعتدال کا کیا مطلب ہے؟ حافظ ابن حجر نے کہا: یعنی ’’افتراش‘‘ (بازو زمین پر بچھا دینے) اور قبض (کہنیوں کو پہلوؤں کے ساتھ ملانے) کے درمیان اعتدال و توسط اختیار کرو۔‘‘ اور امام ابن دقیق العید کہتے ہیں : ’’یہاں اعتدال سے مراد شاید‘ سجدے کو اس ہیئت اور کیفیت کے مطابق کرنا ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ (فتح الباری‘ ج : ۲‘ ص : ۳۹۰‘ باب مذکور‘ مطبوعہ دارالسلام- الریاض) اس مختصر تفصیل سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدے کی کیفیت بھی واضح ہو جاتی ہے اور آپ کا وہ حکم بھی ‘ جس میں آپ نے بلاتفریق مرد و عورت‘ سب کو اسی طرح سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے جیسے آپ خود کیا کرتے تھے۔ بے بنیاد دعویٰ مذکورہ آٹھ دلائل ذکر کرنے کے بعد (جن کی حقیقت ہم نے واضح کر دی ہے) مولانا سکھروی صاحب فرماتے ہیں : ’’مذکورہ بالا احادیث اور آثارِ صحابہ و تابعین سے عورتوں کی نماز کا طریقہ مردوں کی